برلن کا بین الاقوامی فلمی میلہ Berlinale
2 فروری 2009برلن یورپ کے دَور حاضر کے اُن جدید ترین شہروں میں سے ایک ہے، جو تیزی سے پھل پھول رہے ہیں۔ فرانسیسی فلمی میلے کان اور اطالوی میلے وینس کے ساتھ ساتھ دنیا کا تیسرا اہم ترین فلمی میلہ ہر سال اِسی چمکتے دمکتے شہر میں منعقد ہوتا ہے۔
برلن کہنے کو تو جرمنی کے سب سے بڑے شہر کا نام ہے، لیکن اِس نام کا لفظی مطلب ہے: چھوٹا رِیچھ۔ اِسی ریچھ کی تصویربرلن شہر کے پرچم پر بھی نظر آتی ہے جبکہ سونے اور چاندی کی بائیس سینٹی میٹر بڑی اور دو اعشاریہ چار کلوگرام وزنی اُس ٹرافی کی شکل بھی ایک ریچھ ہی کی سی ہے، جسے حاصل کرنے کے لئے دنیا بھر سے فلمساز ہر سال فروری میں برلن کی طرف کھنچے چلے آتے ہیں۔
اِس سال بھی اِس جرمن شہر میں پانچ سے لے کر پندرہ فروری تک ’’Berlinale‘‘ نام کا یہ بین الاقوامی فلمی میلہ پوری شان سے منعقد ہو رہا ہے۔ گولڈن اور سلور بیئر کے اعزازات کے لئے مقابلے کے شعبے میں اٹھارہ فلمیں شریک ہیں، جن میں سے چَودہ فلمیں پہلی مرتبہ اِسی میلے میں دکھائی جا رہی ہیں۔
آج کل کی فلموں میں کونسا مرکزی رجحان نظر آ رہا ہے، اِس کی وضاحت کرتے ہوئے برلن فلمی میلے کے ڈائریکٹر ڈِیٹر کَوزلِک نے ڈوئچے ویلے کو بتایا:’’ہاں رجحانات تو نظر آتے ہیں۔ بہت سی فلموں میں دنیا بھر میں جاری جنگوں کو موضوع بنایا گیا ہے لیکن گذشتہ برسوں کی طرح نہیں، جب لڑائی اور برسرِ پیکار فوجیوں کو دکھایا جاتا تھا۔ آج کل زیادہ تر فلموں میں جنگ کے اثرات کو موضوع بنایا گیا ہے۔ مثلاً اگر ایک چار سالہ بچہ اپنے باپ سے محروم ہو جاتا ہے تو اُس کنبے کے لئے اُس کے کیا اثرات ہیں؟ یا اگر ایک نوبیاہتا دلہن کو لڑائی کے میدان میں اپنا جیون ساتھی ہارنا پڑتا ہے تو اُس پر کیا بیتتی ہے؟‘‘
برلن فلمی میلے کے ڈائریکٹر ڈیٹر کوزلِک نے یہ بھی بتایا کہ اِس بار میلے کے دوران نمائش کے لئے پیش کی جانے والی تقریباً چار سو فلموں میں سے تقریباً ایک سو فلمیں جرمنی کی یا جرمنی کے اشتراک سے بنی ہوئی ہیں اور یہ اتنی بڑی تعداد ہے، جس کی پہلے کوئی مثال نہیں ملتی۔ گویاجرمن فلمی صنعت آج کل بے انتہا کامیاب جا رہی ہے۔
دنیا بھر میں اب یہ میلہ کس قدر اہمیت اختیار کر چکا ہے، اِس کا اندازہ اِس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ امسالہ میلے کے لئے انتظامیہ کو مجموعی طور پر چھ ہزار سے زیادہ فلمیں موصول ہوئی تھیں۔ یہ تعداد گذشتہ سال کے مقابلے میں ایک ہزار زیادہ ہے۔ سن دو ہزار دو کی فلم ’’Heaven‘‘ کی طرح اِس اُنسٹھ ویں برلن فلمی میلے کی افتتاحی فلم بھی مشہور جرمن ہدایتکار ٹَوم ٹِکوَیر کی بنائی ہوئی ہے: ’’دا انٹرنیشنل‘‘۔
میلے کے دوران شہر بھر میں جشن کا سا سماں رہے گا اور دیگر اداروں نے بھی فلم ہی کی مناسبت سے اپنے پروگرام ترتیب دئے ہیں۔ برلن کے فلم میوزیم نے بھی ’’کاسٹنگ اے شیڈو‘‘ کے نام سے اپنی ایک نمائش ہالی وُڈ کے نامور فلم ہدایتکار الفریڈ ہچکاک کے لئے مخصوص کی ہے۔
اِس نمائش میں جہاں اور بہت کچھ دکھایا جا رہا ہے، وہاں الفریڈ ہچکاک کی مشہور فلم ’’نارتھ بائی نارتھ وَیسٹ‘‘ کا بہت ہی محنت سے فلمایا جانے والا ایک منظر بھی ہے، جس کےحوالے سے نمائش منظم کرنے والی خاتون کرسٹینا ژاسپرز بتاتی ہیں:’’مکی کے کھیت کا وہ منظر بہت ہی مشہور ہے، جب ایک ہوائی جہاز اداکار کیری گرانٹ کا پیچھا کرتا ہے۔ ہماری نمائش میں ایک ڈایا گرام کے ذریعے یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ کتنے مختلف زاویوں سے اِس منظر کو فلمایا گیا۔ پہلے سے باقاعدہ طے شُدہ پروگرام کے تحت پچاس سے زیادہ پوزیشنوں سے اِس منظر کی عکس بندی کی گئی۔ ہم اسکرین پر جب یہ منظر دکھاتے ہیں تو ساتھ ساتھ کیمرہ پوزیشن کا نمبر بھی بتاتے ہیں تاکہ دیکھنے ولالا موازنہ کر سکے کہ کس زوایے سے منظر کو فلم بند کیا گیا۔‘‘
امسالہ میلے کی جیوری کی سربراہی کے فرائض گذشتہ برس بہترین معاون اداکارہ کا آسکر ایوارڈ جیتنے والی برطانوی اداکارہ ٹِلڈا سوِنٹن کر رہی ہیں۔ میلے کے موقع پر دنیائے فلم کی کئی نامور شخصیات کی شرکت متوقع ہے، جن میں دا پنک پینتھر ٹو میں اداکاری کے جوہر دکھانے والی بھارتی اداکارہ ایشوریا رائے بھی شامل ہیں۔