1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

برلن کا پرانا ایئرپورٹ: ہزاروں مہاجرین کی عارضی رہائش گاہ

شمشیر حیدر5 جنوری 2016

جرمنی کے دارالحکومت کی انتظامیہ کے لیے ہزاروں تارکین وطن کے لیے رہائش کا بندوبست کرنا چیلنج بن چکا ہے اسی لیے برلن کے قدیم اور تاریخی ایئر پورٹ کو بھی پناہ گزینوں کے لیے عارضی رہائش گاہ بنا دیا گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/1HYwu
Flüchtlingsunterkunft im ehemaligen Flughafen Tempelhof
تصویر: picture-alliance/dpa/G. Fischer

جرمنی کے دارالحکومت کو ان دنوں بڑی تعداد میں آنے والے تارکین وطن کو رہائش فراہم کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔ صوبائی حکام شیلٹر ہاؤس تعمیر تو کر رہی ہے لیکن سماجی کارکنوں کا کہنا ہے کہ مہاجرین کو ’غیر انسانی‘ ماحول میں رکھا جا رہا ہے۔

چھتیس لاکھ کی آبادی والے جرمن دارالحکومت اور وفاقی ریاست، برلن میں ستر ہزار سے زائد تارکین وطن پناہ حاصل کرنے کے خواہش مند ہیں۔ ان دنوں سردی سے بچنے کے لیے زیر زمین ٹرین اسٹیشنوں پر بیٹھے مہاجرین ایک عمومی منظر بن چکا ہے۔

صوبائی انتظامیہ کے مطابق پچاسی فیصد تارکین وطن کو اجتماعی قیام گاہوں میں رہائش فراہم کی گئی ہے جب کہ صرف پندرہ فیصد پناہ گزینوں کو نجی رہائش گاہیں فراہم کی گئی ہیں۔

ٹیمپل ہوف ہوائی اڈہ یورپ کے قدیم ترین ایئرپورٹوں میں سے ایک ہے۔ تاریخی اہمیت کے حامل اس سابقہ ہوائی اڈے کو بھی ان دنوں ہزاروں تارکین وطن کے لیے عارضی اجتماعی رہائش گاہ کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔

تاہم مہاجرین کی مدد کرنے میں مصروف سماجی کارکنوں کا کہنا ہے کہ ٹیمپل ہوف ہوائی اڈے پر بنائی گئی عارضی رہائش گاہیں رہنے کے قابل نہیں ہیں۔ پناہ گزینوں کو جرمن زبان سکھانے والی ایک رضاکار، ایرمگارڈ وُرڈاک کے مطابق یہ رہائش گاہ ’’تباہ کن اور ذلت آمیز ہے۔‘‘

وُرڈاک نے مزید بتایا کہ سابقہ ہوائی اڈے پر بنائی گئی اس اجتماعی رہائش گاہ میں حفظان صحت کی سہولیات میسر نہیں ہیں۔ غسل خانوں کی ناکافی تعداد کی وجہ سے یہاں رہنے والے پناہ گزینوں کو نہانے کے لیے بھی ہر روز بسوں میں سفر کر کے قریبی سوئمنگ پول پر جانا پڑتا ہے۔

برلن انتظامیہ سابقہ ایئرپورٹ کے ہینگروں میں پندرہ ہزار تارکین وطن کو رہائش فراہم کرنا چاہتی ہے۔ لیکن وُرڈاک اس منصوبے سے متفق نہیں ہیں۔ ان کا کہنا ہے، ’’اگر مہاجرین کو جرمن معاشرے میں ضم کیا جانا ہے تو انہیں اجتماعی رہائش گاہوں میں رکھنے کی بجائے فلیٹوں میں رہائش فراہم کی جانا چاہیے۔‘‘

سماجی کارکنوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ اجتماعی پناہ گاہوں میں رہائش فراہم کیے جانے کی وجہ سے غیرملکیوں سے نفرت کرنے والے شدت پسندوں کی جانب سے تارکین وطن پر حملہ کرنے کے امکانات میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے۔

برلن ریفیوجی کونسل سے تعلق رکھنے والے ایک سماجی کارکن کلاسن کا کہنا ہے کہ تارکین وطن کو پناہ کی درخواستوں پر فیصلہ ہونے تک شیلٹر ہاؤس میں رکھنے کی پالیسی غلط ہے۔

ان کی رائے میں اگر پناہ گزینوں کو اجازت دے دی جائے تو برلن میں رہنے والے ہزاروں تارکین وطن اپنے اپنے رشتہ داروں کے ہاں رہائش اختیار کر سکتے ہیں۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید