بغداد میں پھر خون کی ہولی
13 اگست 2015عراقی پولیس اور طبی ذرائع کے مطابق یہ بم دھماکہ بغداد کے علاقے صدر سٹی کی ایک مارکیٹ میں ہوا۔ پولیس افسر محسن السعیدی نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا:’’دھماکہ خیز مواد ریفریجریٹر لے جانے والے ایک ٹرک میں نصب کیا گیا تھا اور مقامی وقت کے مطابق صبح چھ بجے یہ ٹرک جمیلہ مارکیٹ میں پہنچ کر پھٹ گیا۔‘‘ انہوں نے مزید بتایا کہ دھماکے کی شدت سے انسانی اعضاء قریبی عمارتوں تک میں جا کر گرے۔ طبی ذرائع کے مطابق دو سو سے زائد شہری زخمی ہیں، جن میں سے متعدد کی حالت نازک ہے۔
جملیہ مارکیٹ بغداد کے شمال مشرقی حصے میں واقع ہے اور اسے کھانے پینے کی اشیاء کے حوالے سے بغداد کی سب سے بڑی ہول سیل مارکیٹ قرار دیا جاتا ہے۔ ایک عینی شاہد نے نیوز ایجنسی روئٹرز کو بتایا کہ جائے وقوعہ پر سبزیوں اور پھلوں کے ساتھ ساتھ ہلاک ہونے والوں کے اعضاء اور بم کے ٹکڑے بھی بکھرے پڑے ہیں۔ مزید یہ کہ علاقہ ملبے کے ایک ڈھیر میں تبدیل ہو گیا ہے اور امدادی تنظیمں لاشوں اور زخمیوں کو اس ڈھیر میں سے نکالنے میں لگی ہوئی ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ بہت سی دکانیں ٹن کی چادروں سے بنی ہوئی تھیں۔
سنی شدت پسند گروپ اسلامک اسٹیٹ نے اس واقعے کی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔ آئی ایس شمالی اور مغربی عراق کے ایک بڑے حصے پر قابض ہے۔ بم دھماکے کے فوری بعد علاقے میں لوگ جمع ہو گئے۔ ان میں سے کچھ اپنے پیاروں کے نام لے کر چیخ چلا رہے تھے جبکہ دیگر حکومت کے خلاف نعرے بازی میں مصروف تھے۔
حیدر العبادی نے گزشتہ برس موسم گرما میں عراقی وزیراعظم کا منصب سنبھالا تھا، وہ بھی ایک ایسے موقع پر، جب ملکی فوج ’اسلامک اسٹیٹ‘ کی پیش قدمی کو روکنے میں ناکام ہو چکی تھی۔ حیدر العبادی آج کل ’اسلامک اسٹیٹ‘ کو شکست دینے کی بجائے ملک کے سیاسی نظام میں اصلاحات لانے اور اسے مستحکم کرنے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔ حیدر العبادی کے وزیراعظم بننے کے بعد سے بغداد میں ہونے والا یہ اب تک کا ہلاکت خیز ترین حملہ ہے۔