بلاول بھٹو زرداری کا دورہ بھارت: امیدیں اور امکانات
4 مئی 2023شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے وزرائے خارجہ کی میٹنگ میں شرکت کے لیے پاکستان کے وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری آج جمعرات 4 مئی کو گوا پہنچ رہے ہیں، جہاں وہ شام کو چند وسط ایشیائی ملکوں کے وزرائے خارجہ کے ساتھ ملاقاتیں کریں گے۔
بھارت ایس سی او کے موجودہ صدر کے طور پر اس میٹنگ کی میزبانی کر رہا ہے۔ جمعہ 5 مئی کو باضابطہ میٹنگ کا آغاز ہو گا اور سہ پہر بعد ایک مشترکہ اعلامیہ جاری کیا جائے گا۔ اس کے بعد بلاول بھٹو میڈیا سے بات کریں گے اور پھر واپس وطن روانہ ہو جائیں گے۔
ایک دہائی سے زیادہ عرصے میں کسی پاکستانی وزیر خارجہ کا بھارت کا یہ پہلا دورہ ہے، پچھلی مرتبہ اس وقت کی وزیر خارجہ حنا ربانی کھر نئی دہلی آئی تھیں۔
بلاول بھٹو کے دورہ بھارت سے بند دروازے کھلنے کی امید؟
بھارتی میڈیا مختلف اسباب کی بنا پر بلاول بھٹو کے دورے میں کافی دلچسپی کا مظاہرہ کر رہا ہے۔ ان کا دورہ ایسے وقت ہو رہا ہے، جب جوہری طاقت رکھنے والے پڑوسیوں کے درمیان تعلقات انتہائی سرد مہری کا شکار ہیں۔ بلاول بھٹو بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی مبینہ فرقہ وارانہ سیاست اور بھارت میں اقلیتوں کے ساتھ روا سلوک پر بھی سخت نکتہ چینی کر چکے ہیں۔
سال 2019ء میں جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کر دینے کے بعد سے دونوں ملکوں کے تعلقات کشیدہ ہیں۔
گزشتہ ماہ کشمیر میں ایک دھماکے میں کئی بھارتی فوجیوں کی ہلاکت کے لیے نئی دہلی نے پاکستان کو مورد الزام ٹھہرایا تھا۔
بھارت کا پاکستانی وزیر اعظم شہباز شریف کو بھی مدعو کرنے کا فیصلہ
پاکستان نے واضح کر دیا ہے کہ بلاول بھٹو کے دورے کے دوران بھارتی ہم منصب ایس جے شنکر کے ساتھ ان کی کوئی دوطرفہ ملاقات یا بات چیت نہیں ہو گی۔
کسی اہم پیش رفت کی امید نہیں
سفارتی اور اسٹریٹیجک امور کے ماہرین کا خیال ہے کہ بلاول بھٹو کے اس دورے سے بھارت اور پاکستان کے درمیان تعلقات میں برف پگھلنے کی امید بہت کم ہے۔ اس کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ یہ ان کا باہمی دورہ نہیں بلکہ ایس سی او کی میٹنگ میں محض شرکت ہے۔
ایس سی او کی دہلی میٹنگ میں پاکستانی وزیر خارجہ کو دعوت
اسٹریٹیجک امورکے ماہر، ایشیا سوسائٹی پالیسی انسٹی ٹیوٹ میں سینیئر فیلو سی راجا موہن کا خیال ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان کشیدہ تعلقات میں کسی بہتری کی امید بہت کم ہے اور باہمی تعلقات میں بامعنی تبدیلی کے لیے اس وقت تک انتظار کرنا ہو گا، جب تک کہ خارجہ پالیسی کے حوالے سے پاکستان میں داخلی اتفاق رائے پیدا نہ ہو جائے۔
راجا موہن نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ پاکستان میں فوج کی اہمیت مسلّم ہے۔ بھارت کے حوالے سے حکمت عملی سمیت دیگر اہم امور پر پالیسی سازی میں اس کی مرضی کے بغیر کچھ نہیں ہوتا۔ان کے بقول سابق آرمی چیف قمر جاوید باجوہ پر حالیہ سیاسی حملوں کی وجہ سے فوج اور سویلین رہنماؤں کے درمیان اختلافات گہرے ہو گئے ہیں۔
پاکستان ایک مختلف 'آئی ٹی‘ کا ایکسپرٹ ہے، بھارتی وزیر خارجہ
خیال رہے کہ ریٹائرڈ جنرل باجوہ پر الزام لگایا گیا تھا کہ انہوں نے کشمیر کے معاملے پر بھارت کے ساتھ 'سمجھوتہ' کیا۔ حالانکہ جب وہ چھ برس تک آرمی چیف کے عہدے پر فائز رہے، اس دوران میڈیا یا کسی سیاسی جماعت نے اس تناظر میں ان پر نکتہ چینی نہیں کی تھی۔
اسٹریٹیجک امور کے ماہر مائیکل کوگلمین کا کہنا ہے کہ اس دورے کو اعتماد سازی کی کوشش قرار دیا جا سکتا ہے۔
وزیر اعظم مودی کی بھی مجبوریاں
بھارت کے بعض میڈیا ہاؤسز نے دعویٰ کیا تھا کہ پاکستان نے بلاول بھٹو کی بھارتی ہم منصب ایس جے شنکر سے ملاقات کی درخواست کی تھی۔ تاہم پاکستانی حکام نے اس کی یکسر تردید کی ہے۔
مائیکل کوگلمین کا خیال ہے کہ چونکہ بھارت میں اگلے برس عام انتخابات ہونے والے ہیں، ایسے میں بھارت اسلام آباد میں کسی کمزور اور غیر مقبول انتظامیہ کے ساتھ مذاکرات کرنا پسند نہیں کرے گا۔
بھارت اور بی جے پی کی قیادت والی حکومت جموں و کشمیر میں عسکریت پسندی کے لیے پاکستان کو مورد الزام ٹھہراتی رہی ہے۔ پچھلے ماہ ہی کشمیر میں فوج پر ہونے والے حملے کے لیے، جس میں پانچ فوجی مارے گئے تھے، بھارتی حکام نے اس کی ذمہ داری پاکستان سے سرگرم دہشت گردوں پر عائد کی تھی۔
ایس سی او میٹنگ میں شرکت سے پاکستان کو کیا فائدہ ہو گا؟
مائیکل گوگلمین کا خیال ہے کہ بلاول بھٹو نئی دہلی کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کے بجائے ایس سی او کے ساتھ تعلقات کو مضبوط کرنے کے لیے گوا میٹنگ میں شرکت کر رہے ہیں۔
انہوں نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے، ''ایس سی او کی پاکستان کے لیے اپنی اہمیت ہے۔ چین اور روس اس گروپ کی قیادت کرتے رہے ہیں، ان میں سے ایک اسلام آباد کا قریبی اتحادی اور ایک اہم نیا دوست ہے۔ ایس سی او کے نصف سے زائد اراکین کا تعلق وسطی ایشیا سے ہے اور پاکستان ان کے ساتھ اپنی تجارت اور روابط کو وسعت دینے کی کوشش کر رہا ہے، جس میں اسے بڑی حد تک کامیابی بھی مل رہی ہے۔"
کوگلمین کے مطابق بعض کثیر فریقی تنظیموں مثلاً سارک، جن میں بھارت اور پاکستان دونوں شامل ہیں، میں نئی دہلی کے طاقت ور ہونے کی وجہ سے اسلام آباد نقصان میں ہے لیکن ایس سی او پر چین کا غلبہ ہے۔
کیا شنگھائی تعاون تنظیم امریکا کے لیے ایک چیلنج بن سکتی ہے؟
کوگلمین کا کہنا ہے، "پاکستان کے لیے گوا کی میٹنگ میں شرکت اس لیے ناگزیر ہے کیونکہ ایسا نہیں کرنے سے تنظیم کے اندر اپنی حیثیت کمزور پڑ جانے کا خطرہ ہے۔"
پاکستان کے سابق سفیر آصف درانی کے مطابق "ایس سی او کی میٹنگ میں بلاول بھٹو زرداری کی شرکت اس لیے ہے کہ پاکستان اس تنظیم کا رکن ہے۔ اس کا پاکستان بھارت تعلقات سے کوئی تعلق نہیں ہے اور نہ ہی ایسی کوئی امید ہے کہ کوئی برف پگھلے گی۔ لیکن سیاست میں سب ممکن ہے اور کچھ بھی توقع کی جا سکتی ہے۔"