1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بلاگ واچ : ايران کے خلاف امريکی پابنديوں پر بلاگرز کا ردعمل

13 جنوری 2012

بھارت اور ديگر ممالک ميں موجود تجزيہ کار اور بلاگرز کی رائے کے مطابق امريکہ کی جانب سے ايرانی تيل کی برآمدات پر پابندی متعدد ملکوں کے مفادات کے خلاف ہے۔

https://p.dw.com/p/13jCc
تصویر: picture-alliance/ dpa

حالات حاضرہ ميں ان دنوں ايران اور اس کے ايٹمی پروگرام سے متعلق تمام خبريں اہميت کی حامل ہيں کيونکہ ان کا بين الاقوامی معیشت اور سياست پرگہرا اثر پڑ رہا ہے۔ اپنے متنازعہ ايٹمی پروگرام کے پيش نظر ايران کو مغربی ممالک اور خاص طور پر امريکہ کی جا نب سے سخت دباؤ کا سامنا ہے۔ ايران کا کہنا ہے کہ اس کا ايٹمی پروگرام پر امن مقاصد کے لیے ہے اور وہ ملک کی بڑھتی ہوئی توانائی کی مانگ کو پورا کرنے کے ليے ہے۔ امريکی اور يورپی يونين کے حکام کا مؤقف ہے کہ ايران اپنے ايٹمی پروگرام کے ذريعے ہتھیار تيار کر رہا ہے۔

اس حوالے سے ايران پر امريکہ اور يورپی يونين کی جانب سے متعدد پابندياں عائد ہيں اور اب، ايرانی تيل کی برآمد روکنے کے فيصلے سے ايرانی معيشت مزيد کمزور پڑ جائے گی۔ امريکی حکام ان دنوں ايشيائی اور يورپی ممالک پر، ايرانی تيل کی برآمد روکنے کے ليے سفارتی دباؤ ميں مصروف ہيں۔ رواں ماہ کے آغاز ميں يورپی يونين کے سفارتکاروں نے بتايا کہ رکن ممالک، ايران سے تيل کی برآمد پر پابندياں عائد کرنے پر متفق ہيں اور اس سلسلے ميں حتمی فيصلہ برسلز ميں ہونے والے تيس جنوری کے یورپی يونين کے وزرائے خارجہ کے اجلاس ميں متوقع ہے۔ البتہ چين، روس اور بھارت سمیت مختلف ممالک ان پابنديوں کے اطلاق کے حوالے سے تحفظات رکھتے ہيں۔ اس حوالے سے چينی حکام نے ايرانی تيل کی درآمد کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ وہ چين کی توانائی کی ضروريات کے ليے اہم ہيں۔ اسی دوران بھارت ميں بھی حکومت پر دباؤ بڑھتا جا رہا ہے کہ وہ اپنے مفادات کا خيال رکھتے ہوئے فيصلہ کرے۔ بھارت ميں ايرانی تيل کی درآمدات کا حجم اس وقت بارہ فيصد ہے اور تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ بھارتی حکومت کو ايران کے ساتھ تجارتی روابط برقرار رکھنے چاہئیں۔

يورپی يونين کے ممالک ايران سے تيل کی برآمد پر پابندياں عائد کرنے پر متفق
يورپی يونين کے ممالک ايران سے تيل کی برآمد پر پابندياں عائد کرنے پر متفقتصویر: dapd

ٹائمز آف انڈیا کی ويب سائٹ پر شائع ہونے والے ايک بلاگ ميں انديرا بگچی نے اپنے خيالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جيسے جيسے مغربی ممالک ايران کو تنہا کر رہے ہيں، بھارت کے پاس اپنے روابط بہتر کرنے کا ايک سنہری موقع ہے۔ ان کے مطابق موجودہ حالات اور بھارتی تجارتی مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے اس وقت امريکی دباؤ پر ايران سے روابط توڑنا بھارت کے ليے مناسب نہيں۔

دوسری جانب، اريندھم چودھری اپنے بلاگ ميں لکھتی ہيں کہ امريکہ کی جانب سے اس جارہانہ رويے کا مقصد محض ايران کی معيشت کو تباہ کرنا ہے۔ ان کے مطابق ايران پر مجموعی طور پر پندرہ پابندياں عائد کی جا چکی ہيں جن ميں سے گزشتہ ماہ امريکی صدر باراک اوباما کی جانب سے National Defense Authorization Act for Fiscal Year 2012 کے تحت ايرانی سينٹرل بينک کے ساتھ تمام روابط معطل کرنے کی پابندی سب سے زیادہ کڑی تھی۔

چين کے پس منظر ميں خبر رساں ادارے روئٹرز کے کالم نگار، جان فولی لکھتے ہيں کہ يورپی ممالک کی جانب سے ايرانی تيل کی برآمدات پر پابندی کے اطلاق کے بعد پيدا ہونے والی صورتحال، چين کے ليے انتہائی فائدہ مند ہو سکتی ہے۔ اس صورتحال ميں چين، ايران کے ساڑھے چار لاکھ بيرل یومیہ کا ايک بڑا خريدار بن سکتا ہے جس پر اسے تيس ڈالر فی بيرل تک کی رعايت بھی مل سکتی ہے۔

تيل کی برآمد روکنے کے فيصلے سے ايرانی معيشت مزيد کمزور پڑ جائے گی
تيل کی برآمد روکنے کے فيصلے سے ايرانی معيشت مزيد کمزور پڑ جائے گیتصویر: AP

ان بلاگرز اور متعداد افراد کے ردعمل سے يہ بات صاف ظاہر ہے کے يورپی ممالک کے برخلاف ايشيائی ممالک ميں امريکی اقدامات کو خاص پذيرائی نہيں مل رہی ہے۔ اس ماہ کے اختتام پر يورپی يونين کے اجلاس ميں پابنديوں کے اطلاق کا فيصلہ کيا جا سکتا ہے۔

رپورٹ : عاصم سليم

ادارت: ندیم گِل

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں