’بلا وجہ تبصروں سے گریز کریں‘، احمدیہ کمیونٹی پاکستان
7 ستمبر 2018پاکستان کی احمدیہ کمیونٹی نے عاطف میاں کی تقرری اور برطرفی کے فیصلے پر باضابطہ بیان جاری کرتے ہوئے اپنے موقف کا اظہار کیا ہے۔ ڈؑی ڈبلیو اردو کو موصول ہونے والی ایک پریس ریلیز میں ربوہ پاکستان کے ناظر امور عامہ سلیم الدین نے کہا ہے کہ ’’حکومت پاکستان کی جانب سے محترم عاطف میاں کی معاشی مشاورتی کونسل میں تقرری اور اب ان کو الگ کرنا حکومتی صوابدید ہے۔ یہ حکومت وقت کا اختیار ہے کہ وہ کب اور کس سے کام لے۔‘‘
پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کے احمدی شہری ہمیشہ ملک و قوم کے وفادار رہے ہیں اور ’’جب بھی کسی احمدی کی مہارت کی قوم کو ضرورت پڑی، احمدی ہمیشہ صف اول میں کھڑا ہوا اور آئندہ بھی ہو گا۔ اب ہمیں اس موضوع پر بلاوجہ تبصروں سے گریز کرنا چاہیے۔‘‘
یہ بیان ایک ایسے وقت سامنے آیا ہے کہ جب ملک بھر میں دانشوروں، ترقی پسند حلقوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں اور تنظیموں کی جانب سے عاطف میاں کی تقرری واپس لیے جانے کے فیصلے پر سخت تنقید کی جا رہی ہے اور خصوصا سوشل میڈیا پر ایک ’جنگ جاری‘ ہے۔
سینئر صحافی حسین نقی نے اسے عمران خان اور ان کی حکومت کا ’شرمناک ترین فیصلہ‘ قرار دیا ہے جبکہ معروف دانشور زاہد حسین کے مطابق یہ ایک قابل مذمت فیصلہ ہے، جس کے تحت حکومت نے انتہا پسندوں کے سامنے ہتھیار ڈال دیے ہیں۔ سکیورٹی امور کے ماہر امتیاز گل کے خیال میں آئین کے آرٹیکل 25 کو ختم کرنے کا وقت آ گیا ہے تاکہ پاکستان میں شہری برابری قائم کی جا سکے۔
دوسری طرف انصار عباسی نے اس فیصلے کو خوش آمدید کہا ہے اور معروف اینکر ڈاکٹر دانش نے احمدیوں کے متعلقہ آئینی آرٹیکلز کے ساتھ ساتھ جولائی 2018 کو دیے جانے والے اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کا حوالہ دیا کہ کسی بھی پاکستانی شہری کو اعلیٰ عہدہ لیتے وقت حلفیہ بیان دینا ہو گا کہ وہ مسلم ہے یا غیر مسلم۔
یاد رہے کہ 1974ء میں پیپلزپارٹی کی بھٹو حکومت میں احمدیوں کو غیرمسلم قرار دیا گیا تھا جس کے بعد 26 اپریل 1984 کو فوجی آمر ضیا الحق نے چیف ایگزیکٹو آرڈیننس نمبر 20 کے تحت احمدیوں کی جانب سے مسلمان ہونے کا دعویٰ کرنے اور اسلامی شعائر پر عمل کرنے کو قابل سزا جرم قرار دے دیا تھا۔ انہوں نے جداگانہ طرز انتخاب بھی نافذ کیا جسے ایک اور فوجی آمر پرویز مشرف نے 2002 میں ختم کیا لیکن مذہبی حلقوں کے دباؤ کا شکار ہو کر احمدیوں کے لیے اسے برقرار رکھا گیا جس کی وجہ سے احمدی برادری عام انتخابات کا بائیکاٹ کرتی ہے۔
احمدیہ کمیونٹی کی جانب سے شائع ہونے والی سالانہ رپورٹ 2016 کے مطابق احمدی برادری کے خلاف 1700 سے زائد نفرت انگیز خبریں، 313 مضامین شائع ہوئے اور چھ احمدی افراد کو قتل کیا گیا۔ اسی طرح مشتعل گروہوں کی جانب سے احمدیوں کی عبادت گاہوں پر حملوں کی خبریں تمام دنیا میں پھیلتی ہیں اور پاکستان ایک انتہا پسند معاشرے کی صورت میں سامنے آتا ہے۔
معروف دانشور رسول بخش رئیس نے ڈی ڈبلیو کے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ’’حکومت نے اپنے ابتدائی دنوں میں مذہبی بحران سے بچنے کی کوشش کی ہے۔ تاہم دباؤ کے تحت عاطف میاں کی برطرفی ایک افسوس ناک فیصلہ ہے۔ یہ طرز عمل ہمیں تباہی کی طرف لے کر جائے گا۔ یہ فیصلہ میرٹ پر کیا گیا تھا اور وزیر اطلاعات کے بیان پر ملک کے ترقی پسند حلقوں کو خوشی ہوئی تھی۔‘‘
ڈی ڈبلیو سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے احمدیہ کمونٹی جرمنی کے ایک رہنما اور صحافی عرفان خان نے کہا کہ’’پاکستان تحریک انصاف کی اعلی قیادت خاصے عرصے سے عاطف میاں سے رابطے میں تھی اور ان سے گزارش کر رہی تھی کہ وہ پاکستان کی معاشی بحالی اور خصوصا قرضوں کے چنگل سے نکلنے میں ان کی رہنمائی اور مدد کریں۔ احمدیوں نے ہمیشہ اپنے ملک پاکستان کی خدمت کی ہے لہذا عاطف میاں نے بھی انک ی درخواست کو قبول کیا۔ ان کی برطرفی کے فیصلہ سے پاکستان کو نقصان ہو گا اور ترقی پسند قوتیں کمزور ہوں گی۔‘
عرفان خان نے کہا کہ مرکزی دفتر ربوہ کی جانب سے جاری کردہ اس پریس ریلیز کا مقصد یہی باور کرانا ہے کہ پاکستان کی احمدیہ کمیونٹی ہر حال میں پاکستان کی وفادار ہے اور اپنے وطن کی خدمت کرتی رہے گی۔