1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بلنکن کا دورہ چين، بڑی سفارتی پيش رفت کا امکان محدود

18 جون 2023

چين ميں امريکی وزير خارجہ نے اعلیٰ حکام سے ملاقاتيں شروع کر دی ہيں تاہم مبصرين کے مطابق اس دورے کے دوران کسی بڑی سفارتی پيش رفت کے امکانات کم ہيں۔ دنيا کی ان دو سب سے بڑی معيشتوں کے باہمی تعلقات ان دنوں کافی کشيدہ ہيں۔

https://p.dw.com/p/4SjXA
China | US Außenminister Antony Blinken in Peking
تصویر: LEAH MILLIS/REUTERS

امريکی وزير خارجہ انٹونی بلنکن نے اتوار اٹھارہ جون کو چين پہنچنے کے بعد وہاں اعلیٰ حکام سے ملاقاتيں شروع کر دی ہيں۔ بيجنگ کے سرکاری گيسٹ ہاؤس میں آمد پر چينی وزير خارجہ چن گانگ نے اپنے امريکی ہم منصب کا استقبال کيا۔ اس ملاقات سے قبل دونوں نے ميڈيا کے نمائندوں سے کوئی بات نہ کی۔

بائیڈن اور شی کی پہلی صدارتی ملاقات: جوہری دھمکیوں کی مذمت

تائیوان کے گرد چینی فوجی مشقوں کی مدت میں توسیع

امریکہ پھر سے چاند پر کیوں جانا چاہتا ہے؟

انٹونی بلنکن گزشتہ پانچ برسوں ميں چين کا دورہ کرنے والے اعلیٰ ترین امريکی اہلکار ہيں۔ ان دونوں روايتی حريف ممالک کے باہمی تعلقات ان دنوں اپنی نچلی ترين سطح پر ہيں اور اسی ليے سياسی مبصرين کی رائے ميں اس دورے سے صورتحال ميں تبديلی يا دوطرفہ اختلافات ميں کمی کے امکانات کافی کم ہيں۔

دورے کے مقاصد

امريکی وزير خارجہ کل پير کے دن تک چين ميں ہوں گے، جس دوران ان کی اعلیٰ چينی سفارت کار وانگ يی سے بھی ملاقات طے ہے۔ امکان ہے کہ ان کی صدر شی جن پنگ سے بھی ملاقات ہو گی۔ بلنکن کے اس دورے کا مقصد ايسے سفارتی چينلز کا قيام ہے، جن کی مدد سے دونوں ممالک کے مابين آزادانہ اور براہ راست مکالمت جاری رہے تاکہ اختلافات باقاعدہ تنازعے کی شکل اختيار نہ کريں۔

يہ توقعات بھی ہيں کہ امریکی وزير خارجہ کے اس دورے سے ديگر اعلیٰ حکام کے مستقبل قريب ميں دوروں کی راہ بھی ہموار ہو گی۔ امکان ہے کہ آنے والے مہينوں ميں وزیر خزانہ جينٹ ييلن اور وزیر تجارت جيننا رائيمونڈو بھی چين کے دورے کريں گی۔ امريکی صدر جو بائيڈن نے کل ہفتے کے روز ہی ايک بيان ميں کہا تھا کہ وہ آئندہ ماہ اپنے چينی ہم منصب سے ملاقات کے خواہاں ہيں۔

چین کے لیے روانگی سے قبل جمعے کے روز ايک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بلنکن نے بتايا تھا کہ ان کے اس دورے کے تین اہم مقاصد ہيں۔ بحران سے نمٹنے کے ليے کسی سفارتی نظام کا قيام، امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے مفادات اور متعلقہ خدشات کے بارے میں براہ راست بات کرنا اور تعاون کے ممکنہ مواقع کا تعين۔

امریکا کا چین سے نمٹنے کا معاملہ جرمنی کا محتاج کیسے؟

امريکی وزير خارجہ کا دورہ اہم کيوں؟

بلنکن کا دورہ چين باقی دنيا کے ليے بھی کافی اہميت کا حامل ہے اور اسی ليے ذرائع ابلاغ کی توجہ کا مرکز ہے۔ دونوں سپر پاورز کے درمیان کشیدگی ميں اضافے اور ممکنہ تصادم کے عالمی سطح پر گہرے اثرات مرتب ہو سکتے ہيں۔ مالیاتی منڈیوں سے لے کر تجارت تک، ممکنہ چينی امريکی تصادم کے ہر شعبے پر اثرات سامنے آ سکتے ہیں۔ بلنکن کے ساتھ سفر کرنے والے امريکی محکمہ خارجہ کے ايک سينیئر اہلکار کے بقول فريقين يہ بات سمجھتے ہيں کہ اعلیٰ سطحی مکالمت کے دروازے کھلے رہنا چاہييں۔ ''چونکہ ہم باہمی تعلقات کے ايک اہم موڑ پر ہيں، اس لیے يہ ضروری ہے کہ غلط فہمی کی کوئی گنجائش باقی نہ رہے۔‘‘

چين اور امريکا کے مابين کئی معاملات پر اختلافات پائے جاتے ہيں اور گزشتہ چند برسوں کے دوران ان اختلافات کی شدت ميں اضافہ ہوا ہے۔ نتيجتاً يہ خوف بھی پايا جاتا ہے کہ کہيں يہ اختلافات کسی مسلح تنازعے کی شکل اختيار نہ کر ليں، بالخصوص تائيوان کے حوالے سے جس کی امريکا حمايت کرتا ہے۔ چين کا انسانی حقوق کا ريکارڈ اور امريکا کی جانب سے چينی سيمی کنڈکٹرز کی صنعت کو نشانہ بنائے جانے سے متعلق اقدامات بھی باہمی اختلافات کی دیگر نمایاں وجوہات ہيں۔

ع س / م م (روئٹرز)