بلوریا اور ڈیسائی: پاکستانی قیدیوں کے لیے عطیہ خداوندی
22 دسمبر 2020اب آپ پوچھیں گے کہ قید میں تو مجرم ہی بند ہوتا ہے۔ یہ لوگ جاسوس، اسمگلر یا دہشت گرد ہوں گے، تو ان کے قید میں بند ہونے پر کیوں آنسو بہائیں؟ مگر اپنے صحافتی کیرئیر کے دوران، میں نے مشاہدہ کیا ہے کہ دونوں ملکوں کی جیلوں میں بند اکثریت ان قیدیوں کی ہوتی ہے، جو بارڈر کے پاس کھیتوں میں کام کرتے ہوئے یا سمندر میں مچھلیوں کی تلاش میں نادانستہ سرحدی حدود کراس کر جاتے ہیں۔
دونوں ملکوں کی بارڈر پولیس یا کوسٹ گارڈ ان کو پکڑ کر پہلے تو خفیہ اداروں کے حوالے کرتے ہیں،جو یہ طے کرتے ہیں کہ یہ افراد جاسوس یا اسمگلر تو نہیں ہیں۔ اس دوران ان کی جو حالت ہوتی ہے، اس کو بیان کرنے کے لیے الفاظ ہی نہیں ہیں۔
پھر ان کو مقامی پولیس کے سپرد کیا جاتا ہے، جو بارڈر کراس کرنے کا کیس درج کر کے عدالتی کارروائی شروع کرتی ہے۔ اس دوران عدالت، پولیس، وزارت داخلہ سے ہوتے ہوئے وزارت خارجہ کے ذریعے دوسرے ملک کو قیدی کی شناخت کے بارے میں مطلع کرتی ہے۔ اس کا جواب بھی اسی ترتیب کے ساتھ آتا ہے اور پھر ہائی کمیشنوں میں مقیم سفارت کاروں کے ذریعے قیدیوں کو کونسلر رسائی دی جاتی ہے۔
اس تصدیق میں اتنا وقت صرف ہوتا ہے کہ بسا اوقات قیدی کی مدت سزا بھی ختم ہوئی ہوتی ہے۔ فی الوقت بھی دونوں ملکوں کی جیلوں میں 50 کے قریب ایسے قیدی ہیں، جن کی پچھلی ایک دہائی سے زائد عرصے سے بھی شناخت نہیں ہو پا رہی ہے، جس کی وجہ سے ان کی وطن واپسی نہیں ہو رہی ہے۔ ان میں سے اکثر یا تو دماغی توازن کھونے یا گونگا، بہرا ہونے کی وجہ سے اپنی شناخت نہیں بتا پا رہے ہیں۔ پولیس کو کئی افراد کے نام بھی معلوم نہیں ہیں اس لیے ان کے نام کی جگہ پر کاغذات میں گونگا ولد بہرا لکھا ہوا ہے۔ اب اس شناخت سے ان قیدیوں کے رشتہ داروں کا اتا پتا کیسے چل سکتا ہے؟
اب ان قیدیوں کی شناخت کا مرحلہ اور سزا بھی مکمل بھی ہوئی تو بھی کسی نہ کسی بہانے سے ان کی رہائی میں تاخیر کی جاتی ہے۔ بس ایسے مواقع کے لیے دونوں ملکوں میں چند ایسے خدائی خدمت گار موجود ہیں، جو ان قیدیوں کی مدد کو پہنچ کر ان کے لیے فرشتوں کا کام کرتے ہیں۔ بھارت کے دارالحکومت نئی دہلی میں ایڈووکیٹ بلونت سنگھ بلوریا اور ممبئی میں جیتن ڈیسائی ایسے قابل ذکر نام ہیں، جنہوں نے کشیدہ ماحول اور ہندو شدت پسندوں کی دھمکیوں کے باوجود کسی مالی فائدے یا تشہیر کے بغیر پچھلی دو دہائیوں میں کئی ہزار پاکستانی قیدیوں کو قانونی مدد فراہم کی اور ان کی وطن واپسی کے راستے کھولے۔
دہلی کے بھگوان داس روڑ پر سپریم کورٹ کے ایک چھوٹے سے چیمبر میں کسی حد تک بالوں سے عاری سر، میانہ قد اور گٹھے ہوئے جسم کے مالک ایڈوکیٹ بلوریا سے جب میں نے پوچھا کہ آخر قیدیوں کے کیسوں کی پیروی کر کے اور ان کو رہا کروانے کے عوض ان کو کیا ملتا ہے؟ تو ان کا جواب تھا، ”اطمینان قلب، جس دن قیدیوں کی کھیپ واپس جا کر اپنے اہل وعیال سے ملتی ہے، وہ میری عید ہوتی ہے۔ اکثر اوقات قیدیوں کو معلوم بھی نہیں ہوتا ہے کہ کوئی ان کے کیس کی پیروی کر رہا ہوتا ہے یا ان کی رہائی کسی کی بے لوث سرگرمی کی مرہون منت ہے۔‘‘ چھوٹے سے مگر صاف ستھرے چیمبر میں بیٹھے بلوریا نے دل اور دماغ کو جھنجوڑنے والے کئی کیس دیکھے ہیں اور ان کی پیروی کی ہے۔
یہ بھی پڑھیے:
بھارت: آبادی کے تناسب سے زیادہ مسلمان جیلوں میں
جموں و کشمیر کے کھٹوعہ ضلع سے تعلق رکھنے والے بلوریا کا تعلق راجپوت خاندان سے ہے۔ ان کی تیکھی مونچھیں ان کے راجپوت ہونے کا اعلان بھی کر تی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بچپن سے ہی ایک سرحدی علاقے میں رہتے ہوئے وہ بارڈر فورسز کے ذریعے ان قیدیوں کو حراست میں لینے اور پھر ان کی حالت زار کے چشم دید گواہ رہ چکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اکثر قیدی مقامی کسان ہوتے تھے، جو کبھی ہل چلاتے ہوئے یا کھیتوں کو پانی دیتے ہوئے یا گھاس کاٹتے ہوئے سرحدی حدود کراس کر جاتے تھے، جہاں بارڈر فورس اور کوسٹ گارڈ انتہائی جدید آلات اور نقشوں کی مدد کے باوجود کئی بار سرحدوں کی لائن کے بارے میں دھوکا کھا جاتے ہیں، وہاں ان ان پڑھ دیہاتیوں اور ماہی گیروں سے یہ توقع رکھنا کہ وہ سرحدی لکیروں کو پہچان لیں، نہایت ہی عبث ہے۔ جموں یونیورسٹی سے قانون کی پڑھائی کے دوران ہی بلوریا سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لیتے رہے اور پھر 1998سے دہلی میں پریکٹس شروع کی۔
پاکستان میں اپنے ہم منصبوں کے برعکس بلوریا یا ڈیسائی خاصے لو پروفائل، نام و نمود سے عاری اور تشہیر سے دور بھاگتے ہیں۔ اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ پاکستان میں، جو افراد بھارتی قیدیوں کے کیسوں کی پیروی کرتے ہیں، و ہ کسی نہ کسی غیر سرکاری تنظیم یا این جی او سے جڑے ہوئے ہوتے ہیں۔ اسی لیے شاید وہ تشہیر کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے ہیں۔ بھارت میں یہ دونوں افراد انفرادی طور پر اپنے نفس کو مطمئن کرنے کے لیے رضاکارانہ طور پر یہ کام کرتے ہیں۔
میں نے جب بلوریا سے انٹرویو کی درخواست کی، تو یہ مرد درویش نہایت مشکل سے ملنے کے لیے راضی ہوا۔ ان کا کہنا ہے کہ پہلے انہوں نے ان قیدیوں کی رہائی کے لیے جموں و کشمیر ہائی کورٹ کا دروازہ کھٹکٹھانا شروع کیا تھا، کیونکہ وہاں ان کو بغیر عدالتی کارروائی کے بغیر پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت بند رکھا جاتا تھا۔
اس ایکٹ کے تحت عدالتی چارہ جوئی کی ضروت ہی نہیں ہوتی ہے اور حکومت قیدی کو اپنی مرضی کے مطابق قید اور رہا کر سکتی ہے۔ مگر جب متعدد کیسوں کی شنوائی ہی نہیں ہو رہی تھی، تو بلوریا نے دہلی شفٹ ہو کر براہ راست بنیادی حقوق کا حوالہ دیتے ہوئے سپریم کورٹ میں عرضیاں دائر کرنا شروع کیں اور اس کا خاطر خواہ نتیجہ برآمد ہوا۔
بلوریا کا کہنا ہے کہ وہ اب تک تقریبا ایک ہزار سے زائد قیدیوں کو رہا کروانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے سابق وزیر اعظم سردار عبدالقیوم خان، جب دہلی کے دورے پر آئے تھے، تو ان کے کام کی خاص طور پر پذیرائی کی گئی تھی۔ اپنی مونچھوں کو تاؤ دیتے ہوئے بلوریا نے مزید بتایا کہ بسا اوقات ان کی ذات یعنی راجپوت رگ بھی پھڑک اٹھتی ہے، جو ان کیسوں کی پیروی کا محرک بنتی ہے۔ اس کی وضاحت کرتے ہوئے وہ بتاتے ہیں کہ مطالعہ کے دوران ان کے مشاہدے میں آیا کہ جموں کی جیلوں میں بند اکثر پاکستانی قیدی راجپوت مسلمان ہیں، ”چونکہ میں خود بھی راجپوت ہوں، میر ی رگ پھڑک اٹھی۔ وہ مسلمان ہیں تو کیا ہوا، ذات کے راجپوت تو ہیں اور اس کے ناطے میرے بھائی ہیں۔"
اس کارروائی کے دوران قیدیوں کے بارے میں معلومات اکھٹی کرنے کے لیے بلوریا کو مختلف جیلوں کے چکر بھی لگانے پڑتے ہیں۔ کسی وقت تو جیلوں کے نگران ہی ان کو مطلع کرتے ہیں۔ خاص طور پر ایسے قیدیوں کے بارے میں، جن کی مدت سزا ختم ہوئی ہو اور جیل کا عملہ خود حیران و پریشان ہو کہ ان کے ساتھ اب کیا کیا جائے؟ اگر وہ خود ان کے کیس کو حکومت کی نوٹس میں لاتے ہیں، تو خود ان پر ہی سوال و جواب ہوتے ہیں کہ آخر ایک پاکستانی قیدی کی رہائی کے لیے وہ بے تاب کیوں ہیں؟ بلوریا کے ذریعے عدالتی مداخلت کی وجہ سے وہ اس رسک سے بچتے ہیں۔
اسی طرح لاغر اور دبلے پتلے جسم کے مالک جیتن ڈیسائی بھی ممبئی اور گجرات میں پاکستانی ماہی گیروں کو رہا کروانے کے لیے سرگرم رہتے ہیں۔ مچھیروں کے ساتھ ایک بڑی مشکل ہوتی ہے کہ ان کو اپنی کشتیوں سمیت گرفتار کیا جاتا ہے۔ ان کی رہائی زمینی سرحد واہگہ کے راستے ہوتی ہے، جس کی وجہ سے کشتیاں بھارت میں ہی رہ جاتی ہیں۔
یہ کشتیاں انہوں نے قرضے لے کر خریدے ہوتے ہیں۔ وہ رہا تو ہو جاتے ہیں، مگر واپس جا کر ان کو قرضے واپس کرنے ہوتے ہیں اور کشتی کی عدم موجودگی کی وجہ سے روزگار کے بھی مسائل پیدا ہو جاتے ہیں۔ یہ دونوں ملکوں کے ماہی گیروں کا مسئلہ ہے۔ حکومتوں کو ان کی کشتیوں کی واپسی کا بھی بندوبست کرنا چاہیے۔ ایس کشتیاں اکثر گجرات کے شہر پور بندر یا کسی اور ساحلی شہر کی بندرگاہ میں زنگ کھا رہی ہوتی ہیں۔