بلوچستان: اسلحہ ڈپو سے کروڑوں کا اسلحہ غائب
2 جنوری 2015بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں محکمہ پولیس کے اسلحہ ڈپو سے کروڑوں روپے مالیت کا سرکاری اسلحہ غائب ہوا ہے۔ اب غبن کے الزام میں چھ پولیس اہلکاروں کو گرفتار کر کے ان کے خلاف مقامی تھانے میں ایف آئی آر درج کر لی گئی ہے۔ حکام کے مطابق سرکاری اسلحے میں یہ مبینہ غبن بلوچستان پولیس کے ذیلی ونگ بلوچستان کانسٹیبلری کے اسلحہ ڈپو میں کیا گیا ہے، جس کا انکشاف ایک تحقیقاتی رپورٹ میں سامنے آیا ہے۔
صوبائی حکومت کو پیش گئی اس رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ گزشتہ سال دسمبر میں بلوچستان کانسٹیبلری کے البدر لائن میں واقع اسلحہ ڈپو میں آتش زدگی کا جو واقعہ پیش آیا تھا، وہ حادثاتی واقعہ نہیں تھا۔ بلکہ اس واقعے میں محکمے کے کچھ اہلکار ملوث تھے، جنہوں نے مبینہ طور پر اسلحہ ڈپو سے کروڑوں روپے مالیت کا اسلحہ چوری کیا اور بعدازاں اسے نجی مارکیٹ میں بھاری ر قم کے عوض بیچ دیا۔
رپورٹ کے مطابق تحقیقات کے دوران معلوم ہوا ہے کہ بی سی کے غبن میں ملوث اہلکاروں نے اسلحہ ڈپو کو مبینہ طور پر خود ہی آگ لگائی تھی اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ غائب ہونے والا اسلحہ ڈپو میں آتش زدگی کے دوران تباہ ہوا ہے۔
ذرائع کے مطابق تحقیقاتی رپورٹ سامنے آنے کے بعد صوبائی محکمہ داخلہ نے اس ضمن میں فوری کارروائی کا حکم دیا ہے۔ اس سلسلے میں تحقیقاتی ٹیموں نے اسلحہ چوری کرنے کے الزام میں چھ نامزد پولیس اہلکاروں عبدالحمید، سائیں بخش مصور علی اور دیگر کو چھاپے مارتے ہوئے گرفتار کر لیا ہے۔ گرفتار اہلکاروں کی نشاندہی پر سکیورٹی فورسز نے کوئٹہ کے مختلف علاقوں میں قائم نجی اسلحہ ڈیلروں کی دکانوں پر بھی چھاپے مارے ہیں اور اب تک 14 اسلحہ ڈیلروں کو حراست میں لیا گیا ہے، جن سے اس حوالے سے تحقیقات کی جا رہی ہیں۔
حکام کے مطابق بلوچستان کانسٹیبلزی کے ڈپو سے، جو اسلحہ غائب کیا گیا ہے، اس میں کلا شنکوفیں، ایس ایم جیز ، ریوالورز، لاکھوں راونڈز اور دیگر اسلحہ شامل ہے۔
کوئٹہ میں تعینات ایک سینئر پولیس افسر نعیم ثاقب نے سرکاری اسلحے میں بد عنوانی کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ چوری میں ملوث اہلکاروں کے خلاف مقدمہ کوئٹہ کے کینٹ تھانے میں درج کیا گیا ہے، جس میں اسلحہ ڈپو کا انچارج بھی نامزد ہے۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کے دوران ان کا مزید کہنا تھا، ’’اسلحہ چوری میں ملوث اہلکاروں کے خلاف مختلف دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے اور اب پولیس کا انوسٹی گیشن ونگ اس حوالے سے تحقیقات کررہا ہے۔ بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ جن اہلکاروں نے سرکاری اسلحہ چوری کیا ہے ان کے ساتھ دیگر سینئر اہلکار بھی ملوث ہوسکتے ہیں، کیونکہ ان کی معاونت کے بغیر یہ اقدام ممکن نہیں تھا۔‘‘
بلوچستان کانسٹیبلری کے کمانڈنٹ عارف نواز کے بقول بی سی کے اسلحہ ڈپو سے یہ اسلحہ ایک منظم منصوبے کے تحت چوری کیا گیا ہے۔ اور اس میں کئی سینئر افسروں کی بے حسی بھی شامل ہے۔ ڈی ڈبلیو سے خصوصی گفتگو کے دوران ان کا مزید کہنا تھا، ’’چوری میں جو اہلکار ملوث ہیں ان میں ایک سب انسپکٹر بھی شامل ہے۔ ان کے دیگر ساتھیوں کی گرفتاری کے لیے بھی کارروائی کی جارہی ہے۔ تحقیقات میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ جو اہلکار اس جرم میں ملوث ہیں، ان کے اکاونٹس میں چوری شدہ اسلحہ کے عوض کروڑوں کی رقوم بھی منتقل کی گئی ہیں۔ ریکارڈ تحویل میں لیا گیا ہے۔ ملزمان کے خلاف بلا تفریق کارروائی کی جا رہی ہے ہمیں یہ بھی خدشہ ہے کہ یہ اسلحہ دہشت گردوں کے ہاتھوں نہ لگ جائے کیونکہ اسے باآسانی تخریبی کارروائیوں کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔‘‘
واضح رہے گزشتہ روز بلوچستان کے علاقے لورالائی میں لیویز کے ایک چیک پوسٹ پر کالعدم ٹی ٹی پی کے 40 سے زائد مشتبہ عسکریت پسندوں نے بھی حملہ کیا تھا اور لیویز اہلکاروں سے تمام سرکاری اسلحہ چھین لیا گیا تھا۔ اس حملے کے بعد طالبان شدت پسندوں نے لیویز تھانے کو نذر آتش کر دیا تھا۔