بلوچستان: دھمکیاں اور حملے تعلیمی نظام کو مفلوج کر رہے ہیں
29 مئی 2014پسماندگی سے دوچار صوبہ بلوچستان کی پاک ایران سرحد سے ملحقہ ان شورش زدہ علاقوں میں قائم نجی تعلیمی اداروں کو شدت پسندوں کی جانب سے ملنے والی دھمکیوں اور حملوں کا سلسلہ رواں ماہ کی 7 تاریخ سے جاری تھا۔ ان دھمکیوں کی ذمہ داری حال ہی میں منظر عام پرآنے والی تنظیم الاسلامی الفرقان نامی اُس شدت پسند گروہ نے قبول کی ہے، جو پنجگور تربت اور دیگر علاقوں میں قائم اِن نجی تعلیمی اداروں میں رائج مغربی طرز تعلیم کو غیر شرعی نظام سمجھتا ہے۔
مکران ڈویژن کے ان اضلاع میں پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی بندش سے 30 ہزار سے زائد ان طلباء وطالبات کی تعلیمی سرگرمیاں متاثر ہوئی ہیں جن کا سرکاری اسکولوں کی بندش کی وجہ سے انہی درس گاہوں پر انحصار تھا۔ معروف ماہر تعلیم اور بلوچستان میں اساتذہ کی نمائندہ تنظیم جی ٹی اے کے رہنما اے این صابر نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ شدت پسند نوجوان نسل کا مستقبل تباہ کرنا چاہتے ہیں اس لیے انہیں تعلیم سے دور کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ’’ بد امنی سے ہمارے ادارے بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔ ہمارے اساتذہ مختلف علاقوں میں مارے گئے ہیں اور ماحول ایسا بنا دیا گیا ہے کہ خاتون اور مرد اساتذہ خود کو محفوظ نہیں سمجھتے۔ یہ حکومت کا کام ہے اور حکومت کو ہی یہ سوچنا چاہیے کہ یہ مسائل کیوں بڑھتے جا رہے ہیں اور ایسے کون سے اقدامات ہیں جن کے اٹھانے سے ان مشکلات کو ختم کیا جا سکتا ہے‘‘۔
نجی اسکولوں کی بندش کی وجہ سے متاثرہ علاقوں کے ہزارروں لوگ گزشتہ کئی دنوں سے سراپا احتجاج ہیں اور پنجگور کی ایک غیر سرکاری تنظیم کے مقامی رہنما منیر بلوچ کا کہنا ہے کہ حکومت نجی تعلیمی اداروں کے تحفظ کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھا رہی ہے اور علاقے کے بچوں کا مستقل تاریکی میں ڈوبتا جا رہا ہے۔ ’’ہم مجبور ہیں اس لیے احتجاج کر رہے ہیں، دھرنے دے رہے ہیں اور جلسے منعقد کر رہے ہیں تاکہ اپنے بچوں اور بچیوں کی تعلیم کے لیے آواز بلند کرسکیں حالانکہ قبائلی حوالے سے یہ ہمارے لیے عزت کا بھی مسئلہ ہے۔ بلوچستان پہلے سے بہت پسماندہ ہے۔ خواندگی کی شرح پہلے ہی بہت کم ہے۔ اگر یہ معاملہ حل نہیں ہو گا تو ہماری بچیاں اسکول کس طرح جائیں گے اور قرآن پڑھنے گھر سے باہر کیسے نکلیں گی‘‘۔
بلوچستان میں خواتین کی تعلیم کے لیے آواز بلند کرنے والی نیشنل پارٹی کی رہنما سمیرا ایس عنقاء کے بقول مکران ڈویژن کے لوگوں بالخصوص بلوچ خواتین میں بڑے پیمانے پر سیاسی شعور آیا ہے اس لیے شدت پسند ان علاقوں میں خواتین کوتعلیم سے دور رکھنے کی کوشش کررہے ہیں۔ ’’ میرے خیال میں اس وقت بھی ہمارے علاقے کے لوگوں میں شعور کی کمی ہے۔ یہ مسئلہ تب ہی حل ہو گا جب وہاں تعلیم اور شعور عام ہو گا۔ وہاں کے لوگوں میں تعلیم اور شعور کی جو کمی ہے اسے دور کیا جائے حکومت کو عوام کو یہ یقین دلانا ہو گا کہ وہ ان کے ساتھ ہے اور انہیں سیکورٹی مہیا کر سکتی ہے‘‘۔
یہی نہیں کہ عسکریت پسندی اور صوبے میں جاری ان پر تشدد کارروائیوں کی وجہ سے صوبے کی واحد بڑی یونیورسٹی جامعہ بلوچستان بھی بڑی طرح متاثر ہو رہی ہے۔ جامعہ کے اساتذہ عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ یونیورسٹی کے ایک سینئر پروفیسرکلیم اللہ بڑیچ نے اسے بحرانی کیفیت سے تعبیر کیا۔’’ ہمارے 6 سینئر اساتذہ شدت پسندوں کے حملوں میں ہلاک ہو چکے ہیں جن میں ایک خاتون پروفیسر بھی شامل ہیں۔ بد امنی کی وجہ سے ایک سو پچاس سینئر اساتذہ یونیورسٹی چھوڑ کر دیگر صوبوں میں چلے گئے ہیں جن میں 60 پی ایچ ڈی اساتذہ بھی شامل ہیں۔ کیمسٹری منیجمنٹ سائنس، پولیٹیکل سائنس آئی آرسمیت کئی ڈیپارٹمنٹس سے اساتذہ جا چکے ہیں اور اب یونیورسٹی کے کئی شعبوں میں کوئی پی ایچ ڈی استاد ہے ہی نہیں‘‘۔
صوبے میں اس نئے تعلیمی بحران کے حل کے لیے صوبائی حکومت نے کیا اقدامات کئے ہیں ؟ اور حکومت صوبے میں خواندگی کی شرح بڑھانے کے لیے کیا منصوبہ رکھتی ہے ؟ اس کا احاطہ وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹرعبدالامالک بلوچ نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کے دوران کچھ یوں کیا۔ ’’بلوچستاں میں ہم خاص طور پر تعلیم کے فروغ کر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں اور ہمارا تعلیمی بجٹ جو کہ پہلے 4 فیصد تھا ہم نے بڑھا کر 24 فیصد کر دیا ہے اوراس وقت ہمارا ہدف یہ ہے کہ ہم صورتحال کی بہتری کے لیے بلوچستان میں تعلیمی ایمرجنسی نافذ کریں گے اور اپنے بچے اور بچیوں کو اسکول لانے کے لیے ایک خصوصی مہم بھی چلائیے گے چاہیے وہ سرکاری حوالے سے ہو نا نجی سطح پر‘‘۔
یاد رہے کہ مذہبی شدت پسندی کے ساتھ ساتھ مکران ڈویژن میں بلوچ قوم پرستی کی تحریک بھی فکری لحاظ سے سب سے زیادہ موثر ہے اور یہاں نوجوان طبقے کا رحجان بھی سخت گیر موقف کی حامل قوم پرست تنظیموں کی جانب بڑھتا جا رہا ہے۔