1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بلوچستان: سلامتی کی مخدوش صورتحال، 70 ہزار بچے تعلیم سے محروم

عبدالغنی کاکڑ کوئٹہ6 مارچ 2014

بلوچستان میں دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات کے باعث شورش زدہ اضلاع میں ہزاروں بچوں نے اسکول جانا چھوڑ دیا ہے۔ ٹارگٹ کلنگ اور حملوں کے خوف سے بلوچستان یونیورسٹی کے سینئراساتذہ کی ایک بڑی تعداد بھی صوبہ چھوڑ چکی ہے۔

https://p.dw.com/p/1BLCX
تصویر: DW/A. G. Kakar

90 لاکھ سے زائد نفوس پر مشتمل پاکستان کے رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑے اور آبادی کے لحاظ سے سب سے چھوٹے صوبہ بلوچستان میں حکومتی اعداد و شمار کے مطابق امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورتحال نے صوبے کے 32 میں سے بلوچ اکثریت والے تقریباً 10 اضلاع میں تعلیمی صورتحال کو غیر معممولی طور پر متاثر کیا ہے۔ ان علاقوں میں تعلیم سے محروم ہونے والے 70 ہزار سے زائد بچوں اور بچیوں کا مستقبل حکومتی عدم توجہی کے باعث داؤ پر لگ گیا ہے۔

ماہرین کا خیال ہے کہ اگر اس تعلیمی بحران پر ترجیحی بنیادوں پر قابو نہیں پایا گیا تو یہ صورتحال مزید تشویشناک شکل اختیار کر سکتی ہے۔ سینئر ماہر تعلیم ندیم احمد مریانی کے بقول بلوچستان کے شورش زدہ علاقوں میں جب تک حکومت اپنی رٹ قائم نہیں کرے گی تعلیمی بحران ختم نہیں ہو سکتا۔ ڈی ڈبلیوسے گفتگو کرتے ہوئے ان کا مزید کہنا تھا ’’ صوبے کےدس بلوچ اضلاع میں تعلیمی ڈھانچہ مکمل طور پر تباہ ہو چکا ہے۔ ان علاقوں میں تعینات اساتذہ اگر ذہنی طور پر منتشر ہوں گے خوف میں مبتلاء ہوں گے تو وہ کس طرح اسکول جا کر بچوں کو پڑھا سکیں گے‘‘۔

Schule in Balutschistan
ماہرین کا خیال ہے کہ اگر اس تعلیمی بحران پر ترجیحی بنیادوں پر قابو نہیں پایا گیا تو یہ صورتحال مزید تشویشناک شکل اختیار کر سکتی ہےتصویر: DW/A. G. Kakar

بلوچستان میں مجموعی طور پر سرکاری سطح پر قائم پرائمر، مڈل اور ہائی اسکولوں کی تعداد 12600 ہے جبکہ سرکاری اساتذہ کی تعداد صرف 57000 ہے۔ دہشت گردی کی وجھ سے نہ صرف صوبے کے شورش زدہ اضلاع میں تعلیمی سرگرمیاں معطّل ہیں بلکہ صوبے کی واحد بڑی یونیورسٹی جامعہ بلوچستان کوئٹہ کے کئی سینئر اساتذہ بھی بد امنی اور ٹارگٹ کلنگ کی وجہ سے دیگر صوبوں میں منتقل ہوچکے ہیں۔

بلوچستان یونیورسٹی کے ایک سینئر پروفیسر کلیم اللہ بڑیچ کے بقول بدامنی کی یہ صورتحال دن بدن صوبے میں درپیش تعلیمی بحران میں شدت لا رہی ہے۔ ’’بلوچستان یونیورسٹی کے 6 اساتذہ ٹارگٹ کلنگ میں مارے جا چکے ہیں اور ان میں ایک خاتون پروفیسر بھی شامل ہیں، 150اساتذہ یونیورسٹی چھوڑ چکے ہیں جن میں60 سے زائد اساتذہ پی ایچ ڈی تھے۔ فارمیسی ڈیپارٹمنٹ کے 5 اساتذہ جا چکے ہیں جبکہ کیمسٹری، زولوجی، منیجمنٹ سائنس، پولیٹیکل سائنس آئی آر اور دیگر شعبوں کے اساتذہ بھی یونیورسٹی چھوڑ چکے ہیں۔ اب ہمارے کئی شعبے ایسے ہیں، جہاں ایک بھی پی ایچ ڈی پروفیسر نہیں ہے‘‘۔

یاد رہے کہ بلوچستان کی موجودہ حکومت نے کچھ عرصہ قبل صوبے میں تعلیمی بحران کے خاتمے کے لیے’تعلیمی ایمرجنسی‘ کا بھی اعلان کیا تھا تاہم اس حوالے سے عملی طور پر اب تک کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا ہے۔