بلیک آوٹ: میڈیا نہیں دکھاتا، نہیں بتاتا
31 دسمبر 2020اسی طرح یہ بھی سننے کو ملتا ہے کہ 'آج ہمارے گاوں سے گزرتی کچی سڑک نے پھر دو مسافروں کی جانیں لے لیں لیکن میڈیا آپ کو یہ نہیں دکھائے گا‘۔ میڈیا بہت کچھ دکھاتا ہے، چوبیس گھنٹے دکھانےکے لیے میڈیا کو نہ ختم ہونے والا مواد درکار ہوتا ہے، ڈھیروں خبریں، درجنوں پروگرامز، ان گنت اشتہار ۔ خود ہی سوچ لیں کہ دو خواتین یا حضرات فون پہ ایک گھنٹہ بات کریں تو کیا کیا خبریں، باتیں، تبصرے نہیں ہوتے۔ میڈیا کے پاس ایسے چوبیس گھنٹے اور کئی پلیٹ فارمز ہوتے ہیں، جیسے کاغذ کا اخبار ، ٹی وی کی اسکرین اور ڈیجیٹل میڈیا کا دور تک پھیلا سمندر۔
پھر کیا وجہ ہے کہ عوام میں بہت سوں کو یہ شکوہ رہتا ہے کہ میڈیا یہ نہیں دکھاتا وہ نہیں دکھاتا۔ بہت سے ضروری سماجی موضوعات کا میڈیا پر بلیک آوٹ کیوں رہتا ہے؟
پاکستانی میڈیا کے رجحانات کا سرسری مشاہدہ کرنے والے ایسے موضوعات کی ایک لمبی فہرست بنا سکتے ہیں، جنہیں ہمارے میڈیا میں جگہ نہیں ملتی۔
بچوں سے زیادتی کے واقعات خاص طور پر پنجاب کے شہر قصور میں تسلسل سے ایسے واقعات پر بڑی تفصیل سے تحقیقاتی رپورٹنگ ہونی چاہیے تھی، نہیں ہوئی، یہ موضوع ہمارے چوٹی کے صحافیوں میں سے کسی کی بھی توجہ حاصل کرنے میں ناکام رہا۔
ہمارے سابق کولیگ صحافی عدیل وڑائچ اکثر کہا کرتے تھے کہ معمولی سی خبر کو قومی مسئلہ کیسے بنانا ہے یہ جیو سے بہتر کوئی نہیں جانتا ، جیو خبر کا ماتم مناتا ہے، اسے بار بار پیٹتا ہے، ہر کچھ دیر بار الفاظ بدل بدل کر وہی خبر دکھاتا ہے، یہاں تک کہ دوسرے چینلز والوں کو بھی اسی معمولی سے خبر کی کوریج کے پیچھے بھاگنا پڑتا ہے۔
یہ بھی پڑھیے:
بھارت: کیا اسی کا نام صحافت ہے؟
سوشل میڈیا کے ’’بليک ہول‘‘ میں گرنے سے بچيں
خبر وں کو مہم کی طرح چلانے کی یہ سائنس ہمارے سماجی مسائل کے لیے کیوں نہیں چلائی جاتی؟ کیوں ایک گھنٹے کا پرائم ٹائم خبرنامہ سیاست سے آگے نہیں بڑھ پاتا؟ کیوں ٹاک شوز سیاسی مرغے لڑانے سے کم پہ ریٹنگ نہیں دیتے، کیوں چوٹی کے کالم نگار سیاسی ریشہ دوانیوں پہ قلم کی ساری سیاہی صرف کر دیتے ہیں ؟
بلوچستان کا سب سے بڑا مسئلہ امن ہے، بلوچوں کی مقامی تحریکیں ہیں۔ چلیں یہ موضوعات تو نادیدہ سینسرشپ کی نذر ہو جاتے ہیں لیکن کیا بلوچستان میں صرف یہی خبریں ہیں؟ سی فوڈ انڈسٹری کے مسائل، تعلیم کی حالت زار، صحت کی سہولیات، روزگار کے نہ ہونے کے برابر مواقع، قومی مرکزی شاہراہ پر آئے روز ہونے والے حادثے، تفتان اور چمن بارڈر سے جڑے مسائل، کمزور انتظامی ڈھانچہ، کیا ان معاملات کی کوریج پر بھی دل خوف سے کانپتا ہے؟
سرکاری میٹرنٹی ہسپتالوں کی حالت کسی سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے لیے تو کوریج کی حقدار بنتی ہے لیکن زچہ و بچہ کی صحت کے پروگرامز، عورتوں کی تولیدی صحت کے اہم مسائل جیسے حمل گر جانا وغیرہ اور سماجی رکاوٹیں ۔ لکھنے بیٹھیں تو لمبی فہرست اس سے جڑی ہے لیکن صحافت کو سیاست سے فرصت ہو تو کوئی بات کریں۔
نابینا، معذور، نفسیاتی مسائل اور نشے میں مبتلا افراد بھی اسی معاشرے کا حصہ ہیں، صحافت کے بڑے بڑے نام کبھی ان معاملات پر خود کوئی رائے کا اظہار کرتے ہیں نہ آگاہی کے لیے اپنی بے پناہ شہرت کا استعمال کرتے ہیں۔
جہیز کی لعنت، کارو کاری یا کم عمری کی شادی پر کوئی پروگرام، کوئی کالم،کوئی خبر، کوئی تحقیق آپ کو روایتی اور غیر روایتی میڈیا میں نہیں ملے گی، اکا دکا کہیں بات ہو جائے تو وہ اور بات بلکہ احسان ہی ہے۔ یہ موضوعات میڈیا کے مردوں کی شان کے خلاف ہیں۔ یہ موضوعات خواتین کے لیے مخصوص ہیں کہ وہی بولیں اور وہی سنیں، مرد صرف سیاست، معیشت، سائنس اور دفاع پر بولیں گے۔
اینکرز گھنٹوں سیاسی چھچھورپن اور لایعنی گفتگو میں ذومعنی جملے بولتے سیاست دانوں، تجزیہ نگاروں کو روزانہ بلاتے ہیں، انہیں قومی ٹیلی ویژن پر گھنٹہ گھنٹہ پلیٹ فارم دیا جاتا ہے کہ اپنا اور قوم کا وقت ضائع کریں لیکن مذہبی رواداری جیسے موضوعات کو فرقہ واریت کے ڈر کا نام دے کر چھیڑا نہیں جاتا۔
مندر جلتا ہے یا کہیں مسیحی جوڑا دہکتے بھٹے میں جھونک دیا جاتا ہے تو ہماری خبروں کے ٹاپ ٹین میں جگہ بناتا ہے، اقلیتی خاندانوں کی لڑکیوں کی زبردستی شادی کا معاملہ ہو جائے تو میڈیا ڈھکے چھپے دبے دبے لفظوں میں رپورٹ کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ توہین مذہب کا موضوع تو خیر ہے ہی شجر ممنوعہ اس کی کیا بات کیجیے۔
میڈیا میں موضوعات کے نوگو ایریاز کی فہرست طویل ہے۔کچھ تو واقعی ان دیکھی سینسر شپ کا دباو ہے، کچھ ریٹنگ کی فکر اور کچھ اپنی بھی ترجیحات ہیں۔ لوگ کہتے ہیں تو پھر ٹھیک ہی کہتے ہیں، میڈیا سب کچھ نہیں دکھاتا، نہیں بتاتا۔