بموں سے بھاگنے والے سرحدوں کی بندش سے نہیں رکیں گے، میرکل
2 مارچ 2016جرمنی کی وفاقی چانسلر انگیلا میرکل مقدونیہ میں داخل ہونے کی کوشش کرنے والے تارکین وطن کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کے استعمال اور یونان میں پھنسے تارکین وطن کی حالت زار کے بارے میں ایک مقامی جرمن اخبار کو دیے گئے اپنے ایک انٹرویو میں کہا، ’’جو لوگ حلب میں برستے بموں اور داعش کی دہشت سے فرار ہو کر ہجرت کر رہے ہیں ان لوگوں کے لیے یونان میں تارکین وطن کی حالت زار کوئی معنی نہیں رکھتی۔‘‘
یونان میں پھنسے پاکستانی پناہ گزین وطن واپسی کے لیے بیقرار
جرمنی میں اب تک کتنے پاکستانیوں کو پناہ ملی؟
یونان سے جرمنی اور دیگر مغربی یورپی ممالک پہنچنے کے لیے تارکین وطن بلقان کی ریاستوں سے گزر کر جا رہے تھے تاہم گزشتہ کچھ عرصے سے مشرقی یورپی ممالک نے اپنی سرحدیں بند کرنا شروع کر دی ہیں۔
مقدونیہ اور یونان کے مابین سرحد کی بندش کے بعد تارکین وطن یونان میں پھنس چکے ہیں اور ایڈومینی نامی سرحدی گزرگاہ پر ان دنوں سات ہزار سے زائد پناہ گزین مقدونیہ میں داخل ہونے کے منتظر ہیں۔
اس صورت حال میں میرکل نے ایک مرتبہ پھر کہا ہے کہ سرحدوں کی بندش ’پائیدار حل‘ نہیں ہے اور سرحدوں کی یک طرفہ بندش سے دیگر ممالک متاثر ہوں گے۔
اپنی مہاجرین دوست پالیسی کے باعث تعریف اور تنقید کی زد میں رہنے والی میرکل نے اس عزم کا بھی اعادہ کیا کہ وہ یورپی یونین کے سات مارچ کو برسلز میں ہونے والے اجلاس کے دوران اس مسئلے کا یورپی سطح پر متفقہ حل ڈھونڈنے کی کوشش جاری رکھیں گی۔
مشرقی یورپی ممالک کی جانب سے سرحدوں کی بندش کا سب سے زیادہ نقصان یونان کو ہو رہا ہے جہاں اب بھی روزانہ ہزاروں کی تعداد میں تارکین وطن بحیرہ ایجیئن عبور کر کے پہنچ رہے ہیں۔ جنوری کے آغاز سے لے کر فروری کے وسط تک تقریباﹰ ایک لاکھ مزید پناہ کے متلاشی افراد یونانی جزیروں پر پہنچے تھے۔
یورپی کمیشن نے مقدونیہ کی جانب سے پناہ گزینوں کو طاقت کے زور پر روکے جانے پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔ یورپی کمیشن کے ترجمان کا کہنا تھا، ’’اس بحران کو یوں حل نہیں کیا جا سکتا، انسانی حقوق کے بین الاقوامی معیارات کا خیال رکھنا ضروری ہے۔‘‘
مقدونیہ نے یونانی سرحد کو مزید محفوظ بنانے کے لیے فوج بھیجنے کا اعلان کیا ہے۔ مقدونیہ کی فوج کے ترجمان کا کہنا تھا کہ گزشتہ روز کے واقعات کے بعد ان اقدامات کا مقصد سرحدی پولیس کو معاونت فراہم کرنا ہے۔