بنوں میں بم حملہ، سابق وزیراعلیٰ بال بال بچ گئے
13 جولائی 2018ان حالات نے عام ووٹرز کو خوف میں مبتلا کر دیا۔ اگرچہ الیکشن قریب آتے ہی سیاسی سرگرمیوں میں اضافہ ہوا ہے، تاہم جلسے جلوسوں میں دہشت گردی کے واقعات کی وجہ سے عوام کا جذبہ کسی حد تک ماند بھی پڑ گیا ہے۔ خیبر پختونخوا میں گزشتہ ایک ہفتے سے سیاسی اجتماعات میں دہشت گردی کے واقعات رونما ہو رہے ہیں۔ جمعے کے روز متحدہ مجلس عمل کے ضلع بنوں سے قومی اسمبلی کے امیدوار اور سابق وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا اکرم خان درانی کے قافلے کو ریموٹ کنٹرول بم سے نشانہ بنایا گیا۔ اکرم خان درانی اس حملے میں محفوظ رہے تاہم اس واقعے میں پانچ افراد ہلاک جب کہ سولہ سے زیادہ زخمی ہوئے ہیں، جن میں بچے ،خواتین اور پولیس اہلکار شامل ہیں۔
کچھ بھی ہو جائے میدان نہیں چھوڑیں گے، اسفندیار ولی
’’ ایک اور دکھی ماں، ایک اور بیوہ، ایک مرتبہ پھر بچے یتیم‘‘
اے این پی کی انتخابی ریلی پر حملہ، ہلاکتوں کی تعداد 20 ہوگئی
اکرم خان درانی پر یہ حملہ اس وقت کیا گیا جب وہ بنوں کے ہویدا نامی علاقے میں جلسے کے بعد واپس جا رہے تھے اس دوران گنجان آباد علاقے سے گزرتے ہوئے ان کی گاڑی جب ایک موٹر سائیکل کے قریب گزری اس وقت ریموٹ کنٹرول بم سے دھماکا کرایا گیا، جس سے گاڑی کو نقصان پہنچا تاہم اکرم درانی محفوظ رہے۔ بنوں کے ضلعی پولیس افسر خرم رشید نے میڈیا کو بتایا، ’’بارودی مواد موٹر سائیکل میں نصب کیا گیا تھا، جسے اکرم درانی کے قافلے کے قریب اتے ہی ریموٹ کنٹرول سے اڑا دیا گیا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ جلسے کے لیے پچاس سیکورٹی اہلکار تعینات کیے گئے تھے۔ رشید نے بتایا کہ پشاور کے خود کُش حملے کے بعد کوشش کی گئی ہے کہ امیدواروں کو مکمل سیکورٹی فراہم کی جائے۔
تاہم متحدہ مجلس عمل کے رہنما اور جمیعت علما اسلام خیبر پختونخوا کے امیر مولانا گل نصیب خان صوبائی حکومت کی جانب سے امیدواروں کی سیکورٹی کے لیے کیے جانے والے اقدامات سے مطمئن نہیں۔ ان کا کہنا ہے، ’’نگران حکومت اور سکیورٹی ادارے انتخابات میں حصہ لینے والے امیدواروں کو سیکورٹی فراہم کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہیں۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ اس انداز کے حملے جمہوری عمل کو سبوتاژ کرنے کی کوشش ہیں اور اگر بدامنی کی وجہ سے انتخابات ملتوی کیے گئے تو یہ عمل نگران حکومت کے چہرے پر ایک بدنما داغ تصور کیا جائے گا۔
شمالی اور جنوبی وزیر ستان کے ساتھ متصل ضلع بنوں سکیورٹی کے لحاظ سے حساس علاقہ قرار دیا جاتا ہے، جہاں گزشتہ دو ہفتے کے دوران سیاسی سرگرمیوں کے دوران دہشت گردی کے دو واقعات رونما ہوئے ہیں۔ اس حلقے میں جمیعت علما اسلام (ف) کا مضبوط ووٹ بنک تصور کیا جاتا ہے، جب کہ رواں انتخابات میں اس حلقے سے اکرم خان درانی اور پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کے مابین مقابلہ ہے۔
حملے کے بعد میڈیا سے بات چیت کے دوران اکرم خان درانی کا کہنا تھا، ’’جتنا بھی عدم استحکام ہے، وہ پختونوں کی سرزمین پر ہے۔ اس میں ستر ہزار پختونوں کی جان گئی لیکن کارکنوں سے یہی کہوں گا کہ ہمت نہیں ہارنا۔ حکومت اور سکیورٹی اداروں کے ساتھ تعاون کرنا اور دشمن کے منصوبوں کو ناکام بنانا ہے۔‘‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ان کا مدمقابل امیدوار ہیلی کاپٹر سے انتخابی مہم چلاتا ہے جب کہ وہ اپنے لوگوں کے پاس جاتے ہیں۔ اکرم درانی کا کہنا تھا کہ سیکورٹی ادارے کہتے ہیں کہ تین دہشت گرد داخل ہوئے ہیں انہیں ان لوگوں کے حلیے کا بھی پتہ ہوتا ہے اگر انہیں معلومات ہیں تو انہیں گرفتار کیوں نہیں کیا جاسکتا؟
مسلم لیگ (ن) کے کارکنوں کی پکڑ دھکڑ، خیبر پختونخوا میں سیاسی لوگوں کے جلسوں اورکارنر میٹنگز پر حملے، ٹارگٹ کلنگ، آصف علی زرداری اور فریال تالپور کے نام ای سی ایل میں ڈالنے اور بعد میں نکالنے سمیت سیاسی لوگوں کے خلاف کرپشن کے کیسز لانے اور دہشت گردی کے واقعات میں اضافے نے صورتحال کو نیا رخ دیا ہے۔ پشاور میں عوامی نیشنل پارٹی کے کارکن آج بھی سراپا احتجاج ہیں۔ تاہم آج حملے کا شکار ہونے والے اکرم خان درانی کی طرح اسفندیار ولی خان کا بھی یہی موقف ہے کہ بعض قوتیں انہیں انتخابی عمل سے باہر رکھنا چاہتی ہیں۔ ہارون بلور کی کارنر میٹنگ میں دہشت گردانہ حملے میں بائیس افراد کی ہلاکت کے بعد این پی نے تین روزہ سوگ کے بعد انتخابی سرگرمیاں بحال کرنے کا اعلان کیا ہے۔