بنگلہ دیشی رکن پارلیمان پر جنگی جرائم کا الزام
15 نومبر 2011ڈھاکہ سے ملنے والی رپورٹوں میں فرانسیسی خبر ایجنسی اے ایف پی نے بتایا ہے کہ اس اپوزیشن رہنما پر چار عشرے قبل جنگی جرائم کے ارتکاب سے متعلق باقاعدہ الزامات عائد کیے جانے کی سرکاری حکام نے تصدیق کر دی ہے۔ یہ الزامات صلاح الدین قادر چوہدری کے خلاف عائد کیے گئے ہیں، جو ملکی سطح پر اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی BNP سے تعلق رکھتے ہیں اور ڈھاکہ میں ملکی پارلیمان کے ایک منتخب رکن ہیں۔
ڈھاکہ میں پروسیکیوٹر سید حیدر علی نے بتایا کہ صلاح الدین قادر چوہدری پر یہ الزام بھی ہے کہ انہوں نے ماضی میں مشرقی پاکستان کہلانے والے موجودہ بنگلہ دیش کی 1971 میں مغربی پاکستان سے علیحدگی کی جنگ کے دوران لوٹ مار بھی کی اور جنسی زیادتی کے واقعات میں مدد کے مرتکب بھی ہوئے تھے۔
سید حیدر علی نے اے ایف پی کو بتایا کہ دفتر استغاثہ کے تفتیشی ماہرین کو اس بارے میں قابل اعتماد شواہد ملے ہیں کہ چوہدری جنگی جرائم کے مرتکب ہوئے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ ملزم کے خلاف الزامات کا باقاعدہ اندراج پیر کو رات گئے کیا گیا اور اب ان الزامات کو تسلیم کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ 1971 کے خونریز واقعات سے متعلق مقدمات کی سماعت کرنے والا انٹرنیشنل کرائمز ٹریبیونل کرے گا۔
بنگلہ دیش میں گزشتہ برس قائم کیے جانے والے اس ٹریبیونل کا کام ان مشتبہ افراد کے خلاف مقدمات کی سماعت ہے، جو اس ملک کی پاکستان سے آزادی کی جنگ کے دوران شدید نوعیت کے جرائم کے مرتکب ہوئے تھے۔ انٹرنیشنل کرائمز ٹریبیونل کہلانے والی یہ عدالت ایک مقامی طور پر قائم کی گئی عدالت ہے جس کی اقوام متحدہ نے توثیق نہیں کی اور بنگلہ دیشی اپوزیشن کا دعویٰ ہے کہ اس عدالت کا قیام سراسر جعلسازی ہے جس کے پیچھے ڈھاکہ حکومت کے اپنے مخصوص مقاصد کار فرما ہیں۔
سید حیدر علی کے بقول چوہدری بی این پی سے تعلق رکھنے والے وہ اہم ترین رکن پارلیمان ہیں، جن کے خلاف اس ٹریبیونل میں الزامات دائر کیے گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ صلاح الدین قادر چوہدری مبینہ طور پر ایک بہت مشہور ہندو بزنس مین کے قتل میں براہ راست ملوث رہے ہیں۔
بنگلہ دیشی دفتر استغاثہ کا یہ بھی کہنا ہے، ’ہمیں یہ شواہد ملے ہیں کہ چوہدری نے چٹاگانگ میں اپنے والد کی رہائش گاہ کو جنگ کے دوران ایک ٹارچر سیل بنا رکھا تھا۔‘ سید حیدر علی کے بقول چوہدری کے والد پاکستان کے بہت بڑے حامی تھے اور انہوں نے سابقہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی اور خود مختاری کی مخالفت کی تھی۔
بنگلہ دیش کے اسی انٹرنیشنل کرائمز ٹریبیونل میں گزشتہ مہینے دلاور حسین سیدی نامی پہلے ملزم پر باقاعدہ فرد جرم عائد کر دی گئی تھی۔ سیدی بنگلہ دیشی جماعت اسلامی کے ایک سرکردہ رہنما ہیں اور ان پر نسل کشی، جنسی زیادتی اور مذہبی بنیادوں پر تعاقب کا نشانہ بنانے جیسے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔
سیدی اس وقت جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والے چار دیگر مشتبہ افراد اور بی این پی سے تعلق رکھنے والے دو مبینہ ملزمان کے ہمراہ حکام کی حراست میں ہیں۔ بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی سے تعلق رکھنے والے ان دو مبینہ جنگی ملزمان میں سے ایک صلاح الدین قادر چوہدری ہیں۔ یہ دونوں سیاسی جماعتیں سن 2001 سے لے کر 2006ء تک ملک میں حکمران مخلوط حکومت میں شامل تھیں اور 71ء کی جنگ سے متعلق ٹریبیونل کو ’کھلا ڈھونگ‘ قرار دیتی ہیں۔
انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی مشہور تنظیم ہیومن رائٹس واچ کے مطابق اس ٹریبیونل میں قانونی کارروائی کے لیے اختیار کیے گئے طریقے بین الاقوامی معیارات پر پورا نہیں اترتے۔
بنگلہ دیش کی موجودہ حکومت کا دعویٰ ہے کہ 40 سال قبل نو ماہ تک جاری رہنے والی آزادی کی جنگ میں قریب تین ملین انسان مارے گئے تھے۔ غیر جانبدار محققین اور مؤرخین کے مطابق ہلاک شدگان کی تعداد اس سے کہیں کم تھی۔
رپورٹ: مقبول ملک
ادارت: حماد کیانی