بنگلہ دیش: اسپیشل پولیس اسکواڈ کے گرد گھیرا تنگ
20 ستمبر 2011لمون حسین نامی سولہ سالہ طالب علم بنگلہ دیش کی بدنام زمانہ ’ریب‘ یعنی ’ریپڈ ایکشن بٹیلیئن‘کی گولی کا نشانہ بنا اور اس واقعے نے بنگلہ دیش کو ہلا کر رکھ دیا۔ اس واقعے کے خلاف عوامی حلقوں سے شدید رد عمل سامنے آیا اور انہوں نے ’ریب‘ کی کارروائیوں کو تنقید کا نشانہ بنانا شروع کیا۔ پولیس نے حسین کو نزدیک سے گولی ماری تھی، جس کے باعث اس کی ایک ٹانگ ضائع ہو گئی۔
'ریب‘ کا مؤقف ہے کہ حسین ایک دہشت گرد گروہ کا رکن تھا اور اس کو کمانڈوز کے ساتھ فائرنگ کے تبادلے میں گولی لگی تھی تاہم حکومتی ایجنسیوں، انسانی حقوق کی تنظیموں اور خود وزیر اعظم نے بھی پولیس کے اس مؤقف پر سوالات اٹھا دیے۔
حسین نے ایف پی کو بتایا، ’’میں گھر کی جانب جا رہا تھا جب ایک پولیس افسر نے مجھے گریبان سے پکڑ لیا۔ اس نے کہا ’ تم دہشت گرد ہو‘، میں نے کہا ’میں دہشت گرد نہیں ہوں۔‘ میں نے اس سے کہا کہ میں ایک عام طالب علم ہوں، مگر اس نے میری بات نہیں سنی اور میری ٹانگ پر گولی مار دی۔ اس نے مجھ سے کوئی پوچھ گچھ نہیں کی، نہ میرا نام پوچھا۔ میں گولی لگنے کے بعد میں زمین پہ پڑا رہا۔ میں سمجھ رہا تھا کہ میرے دن پورے ہو گئے ہیں۔‘‘
حسین زندہ رہا کیونکہ پولیس افسر اسے زخمی حالت میں چھوڑ کر چلا گیا تھا۔ اس کے زخم سے خون بہتا رہا۔ بعد ازاں ڈاکٹروں کو اس کا پیر کاٹنا پڑا۔ حسین اب مصنوعی ٹانگ کے ساتھ چلنا سیکھ رہا ہے۔
انسانی حقوق کی ایک تنظیم سے وابستہ نور خان کا اس واقعے کے بارے میں کہنا ہے، ’’اس سے قبل ماورائے عدالت قتّال کو دہشت گردی اور جرائم کے سدباب کا نام دے کر جائز ثابت کیا جاتا تھا، مگر اب لوگ جان گئے ہیں کہ ’ریب‘ عام لوگوں کو بھی قتل کرتی ہے۔‘‘
نیویارک میں قائم انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ کے مطابق اس واقعے میں ملوث کسی بھی پولیس افسر پر مقدمہ قائم نہیں کیا گیا ہے۔ دوسری جانب وزیر اعظم شیخ حسینہ اب حسین کی حمایت میں آگے آ گئی ہیں۔
رپورٹ: شامل شمس⁄ خبر رساں ادارے
ادارت: عدنان اسحاق