بنگلہ دیش: روہنگیا مہاجرین کی دورافتادہ جزیرے پر منتقلی شروع
4 دسمبر 2020بنگلہ دیشی حکام کا کہنا ہے کہ کسی بھی پناہ گزین کو اس کی مرضی کے خلاف منتقل نہیں کیا جا رہا ہے۔ حقوق انسانی کی تنظیموں نے تاہم مہاجرین کی منتقلی کے عمل کوروکنے کی اپیل کی تھی۔
بنگلہ دیش کا کہنا ہے کہ وہ صرف ان پناہ گزینوں کو منتقل کر رہا ہے جو وہاں جانے کے خواہش مند ہیں اور اس سے کیمپوں کی بھڑ بھاڑ کم ہوگی۔ تاہم پناہ گزینوں اور انسانی حقو ق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ کچھ روہنگیا مہاجروں کو زبردستی بھیجا جا رہا ہے۔ انہیں بھاسن چارنامی ایک جزیرے پر بھیجا رہاہے۔ یہ جزیرہ بیس برس قبل سمندر میں رونما ہوا تھا اور یہا ں اکثر سیلاب آتے رہتے ہیں۔
مہاجرین کی شکایت
بنگلہ دیش کی بحریہ کے حکام کا کہنا ہے کہ روہنگیا باشندوں کو سات کشتیوں کے ذریعے جزیرے پر بھیجا جائے ان میں دو کشتیوں پر کھانے پینے سمیت دیگر ضروری اشیاء ہوں گی۔ بیس بسوں میں تقریباً ایک ہزار افراد کو ساحلی شہر چٹاگانگ روانہ کیا گیا جہاں سے انہیں اس جزیرے پر بھیجا جائے گا۔
بنگلہ دیشی وزیر خارجہ عبدالمومن نے کہا، ''ان کی حکومت کسی کو بھی زبردستی بھاسن چار پر نہیں لے جائے گی۔ ہم اپنے اس موقف پر قائم ہیں۔‘‘
تاہم خبر رساں ادارے روئٹرز نے بعض پناہ گزینوں کے حوالے سے کہا کہ حکومت کے مقرر کردہ مقامی رہنماؤں نے جزیرے پر بھیجے جانے والے افراد کی جو فہرست تیار کی ہے اس میں ان مہاجروں کے بام بھی شامل ہیں، جن سے اس منتقلی کے سلسلے میں کوئی رائے نہیں لی گئی ہے۔
ایک 31سالہ شخص نے روئٹرز کو بتایا، ''وہ ہمیں زبردستی لے جا رہے ہیں۔ تین دن قبل جب مجھے پتہ چلا کہ میرے گھر والوں کا نام اس فہرست میں شامل ہے تو میں وہاں سے بھاگ گیا لیکن کل انہوں نے مجھے پکڑ لیا اور اب جزیرے پر بھیج رہے ہیں۔‘‘
اپنے بیٹے اور دیگر رشتہ داروں کو چھوڑنے آئیں 60 سالہ صوفیہ خاتون کا کہنا تھا، ''انہوں نے میرے بیٹے کو بہت مارا، حتیٰ کہ اس کے دانت تک توڑ ڈالے کہ وہ جزیرے کو جانے کے لیے تیار ہو جائے۔‘‘ اس خاتون کو روتے ہوئے کہنا تھا، ''میں اسے اور اس کے خاندان سے ملنے آئی ہوں، اور شاید یہ آخری بار ہو۔‘‘
17 سالہ حافظ احمد اپنے بھائی اور ان کے خاندان کو خیرباد کہنے آئے تھے۔انہوں نے بتایا، ''میرا بھائی دو دنوں سے غائب ہے۔ اب ہمیں پتا چلا کہ وہ یہاں (ٹرانزٹ کیمپ) میں ہے جہاں سے اسے جزیرے پر لے جایا جائے گا۔ وہ اپنی مرضی سے نہیں جا رہا۔‘‘
حقوق انسانی تنظیموں کا الزام
انسانی حقوق کی تنظیموں ہیومن رائٹس واچ اور ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق کچھ پناہ گزینوں کو اس جزیرے پر منتقل ہونے پر مجبور کیا گیا ہے۔ تین برس قبل میانمار میں ایک فوجی کارروائی کے دوران روہنگیا مسلمانوں کے بیشتر گاؤں تباہ کردیے گئے تھے۔ اقو ام متحدہ کے تفتیش کاروں کے مطابق اس موقع پر دس ہزار سے زائد افراد ہوئے اور سات لاکھ تیس ہزار سے زائد روہنگیا فرار ہو کر بنگلہ دیش پہنچے۔ اقو ام متحدہ نے میانمار کی فوجی کارروائی کو 'نسلی تطہیر‘ کی مثال قرا ردیا تھا۔ میانمار حکومت تاہم ان الزامات کو رد کرتی ہے۔
بنگلہ دیش کے جنوب مشرقی علاقوں میں تقریباً دس لاکھ روہنگیا پناہ گزین سال 2017 میں میانمار میں ہونے والے فوجی آپریشن کے بعد سے کیمپوں میں مقیم ہیں۔
قیدی بنانے کے مترادف
ہیومن رائٹس واچ نے کہا کہ روہنگیا باشندوں کو جزیرے پر بھیجنے کا بنگلہ دیش کا اقدام عوام کو بڑے پیمانے پر قیدی بنانے کے مترادف اور بین الاقوامی انسانی حقوق کی ذمہ داریوں کے خلاف ہے۔
اقوام متحدہ نے جمعرات کو ایک بیان میں کہا کہ وہ اس عمل میں 'شامل نہیں‘ اور اس کے پاس 'کم معلومات‘ ہیں۔ اس کا کہنا تھا کہ اقوام متحدہ کو آزادانہ طور پر جزیرے کی ایک رہنے کی جگہ کے طور پر تجزیہ کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ ادارے نے مزید کہا کہ پناہ گزینوں کو 'منتقل ہونے کے لیے آزاد اور معلومات پر مبنی فیصلہ‘ کرنے کا حق ہے اور وہاں پہنچ کر ان کو تعلیم اور صحت تک رسائی ہونی چاہیے اور اگر وہ واپس آنا چاہیں تو اس کا بھی حق ہونا چاہیے۔
لیکن بنگلہ دیش کے وزیر خارجہ عبدالمومن نے ان تنظیموں کو اس دعوے کو 'سراسر جھوٹ‘قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس جزیرے پر فراہم کی جانے والی سہولیات کیمپوں میں موجود سہولیات سے بہتر ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ بنگلہ دیش کی حکومت نے تقریباً 23 ہزار خاندانوں کو جزیرہ بھاسن چار منتقل کرنے کا فیصلہ کیا ہے کیونکہ کیمپوں میں تعداد بہت زیادہ تھی اور یہ افراد اپنی مرضی سے منتقل ہو رہے ہیں۔
بھاسن چار جزیرے کا رقبہ 13 ہزار ایکڑ ہے اور یہ حالیہ دہائیوں میں خلیج بنگال میں ابھرنے والی کئی سمندری پٹیوں میں سے ایک ہے۔ بنگلہ دیش نے اس جزیرے پر ایک لاکھ روہنگیا کے لیے رہائش کا بندوبست کیا ہے جبکہ سیلاب سے بچاؤ کے لیے حفاظتی بند بھی تعمیر کیا گیا ہے لیکن مقامی افراد کے مطابق یہ جزیرہ سمندری طوفانوں کے نتیجے میں آنے والی بلند لہروں کی وجہ سے زیر آب آ سکتا ہے۔
ج ا / ع ت (روئٹرز، اے پی، اے ایف پی)