بنگلہ دیش میں جنگی جرائم، عدالتی کارروائی کا آغاز
10 اگست 2011بنگلہ دیش میں انٹرنیشنل کریمنل ٹربیونل کا قیام گزشتہ برس عمل میں لایا گیا تھا تاکہ بنگلہ دیش کی آزادی کی جنگ کے دوران جنگی جرائم کے مرتکب ہونے والے مشتبہ افراد کو عدالت کے سامنے لایا جا سکے۔ بنگلہ دیش کی سب سے بڑی مذہبی جماعت سے تعلق رکھنے والے دلاور حسین سیدی پر 1971ء میں پاکستانی فوجیوں کے ساتھ مل کر 50 افراد کو ہلاک کرنے کا الزام ہے۔
ریاستی پراسیکیوٹر زید المعلوم کا کہنا تھا کہ دلاور حسین سیدی کے خلاف آج باقاعدہ طور پر عدالتی کارروائی کا آغاز کیا جائے گا۔ دلاور حسین سیدی جماعت اسلامی کے ایک اعلیٰ عہدیدار ہیں۔ جماعت اسلامی پر بنگلہ دیش کی پاکستان سے علیحدگی کے وقت لوٹ مار، عصمت دری اور غیر مسلموں کو زبر دستی اسلام قبول کرنے پر مجبور کرنے جیسے الزامات عائد کیے جاتے ہیں۔
انیس سو اکہتر تک بنگلہ دیش کو مشرقی پاکستان کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ بنگلہ دیش کی پاکستان سے علیحدگی کے وقت لاکھوں انسانی جانیں ضائع ہوئی تھیں۔ بنگلہ دیش میں اس وقت شیخ حسینہ کی حکومت ہے۔ وزیر اعظم حسینہ کا کہنا ہے، ’’ جنگ میں تین ملین کے قریب افراد ہلاک ہوئے تھے۔ بہت سے قتل قابض پاکستانی افواج کے بنگلہ دیشی اتحادیوں نے کیے تھے۔‘‘
شیخ حسینہ بنگلہ دیشی لیڈر شیخ مجیب الرحمان کی بیٹی ہیں، جنہوں نے بنگلہ دیش کے قیام میں کلیدی کردار ادا کیا تھا اور انہیں بنگلہ دیش میں آزادی کا رہنما کہا جاتا ہے۔
انیس سو اکہتر میں بنگلہ دیش کی آزادی کی جنگ کا آغاز اس وقت ہوا تھا، جب ڈھاکہ میں ہزاروں افراد ’آپریشن سرچ لائٹ‘ کے دوران ہلاک ہو گئے تھے۔ یہ آپریشن پاکستانی افواج کی طرف سے بنگلہ دیشیوں کی تحریک آزادی کو کچلنے کے لیے کیا گیا تھا۔ ماہرین کے مطابق فوجی مہم جوئی، قتل عام اور تشدد کے واقعات کی وجہ سے بنگلہ دیشی تحریک آزادی میں شدت آئی تھی۔ سیدی مزید چار جنگی جرائم کے مشتبہ افراد کے ساتھ زیر حراست ہیں۔ ان میں سے دو کا تعلق جماعت اسلامی جبکہ دو کا بنگلہ دیش نیشنل پارٹی ’بی این پی‘ سے ہے۔
ان دونوں جماعتوں نے اس ٹربیونل کو ایک ’حکومتی شو‘ قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا ہے۔
رپورٹ: امتیاز احمد
ادارت: کشور مصطفیٰ