بنگلہ دیش نے ’تاریکی‘ پر تقریباً قابو پا لیا
2 نومبر 2014ڈھاکا میں توانائی کے ملکی ادارے کے سربراہ معصوم البیرونی نے بتایا کہ بھارت کے ایک بجلی گھر میں نقص کے باعث تقریباً بارہ گھنٹوں تک بنگلہ دیشی دارالحکومت سمیت دیگر شہر اندھیرے میں ڈوب گئے تھے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ آج اتوار تک تمام لائنیں کام کرنا شروع کر دیں گی۔
مقامی حکام کے بقول انجینیئرز نے تین ہزار چھ سو میگا ووٹ کی فراہمی بحال کر دی ہے، جس سے ستر فیصد صارفین کی بجلی بحال ہو چکی ہے۔ وزارت توانائی کے ترجمان سیف الحسن نے خبر رساں ادارے اے ایف پی سے باتیں کرتے ہوئے کہا ، ’’ اتوار تک اس مسئلے پر مکمل طور پر قابو پا لیا جائے گا‘‘۔
البیرونی نے مزید بتایا کہ اس سے قبل 2007ء میں بنگلہ دیش بھر میں لائٹ جانے کا واقعہ رونما ہوا تھا۔ اس وقت اس بلیک آؤٹ کی وجہ سے سمندری طوفان بنا تھا۔ بنگلہ دیش چار سو کلو والٹ بجلی بھارتی ریاست مغربی بنگال سے درآمد کرتا ہے۔ ڈھاکا حکام نے توانائی کے مسئلے پر قابو پانے کے لیے جاپان، چین، ملیشیا اور امریکا سے معاہدے کیے ہوئے ہیں۔ یہ ممالک بنگلہ دیش میں بجلی گھر قائم کرنے کے علاوہ بنیادی ڈھانچے کو بہتر کریں گے۔
وزارت توانائی کے ایک اہلکار نے بتایا کہ نیشنل گرڈ نے ایک دم کام کرنا چھوڑ دیا تھا ، جس کی وجہ سے ملک بھر میں پاور جینیریٹرز بھی بند ہو گئے تھے۔ اس دوران صدارتی محل، وزیراعظم کے دفتر، سرکاری دفاتر اور ٹیلی وژن کی عمارت میں بھی بجلی منقطع ہو گئی تھی۔
ہفتے کی شب جیسے ہی ڈھاکا اور دیگر علاقوں میں بجلی آئی تو شہریوں کی ایک بڑی تعداد نے خوشیاں منائیں۔ 15 ملین کی آبادی والے شہر ڈھاکا میں بغیر لائٹ کے سناٹا چھایا ہوا تھا۔ عطاالحکیم نامی ایک شہری نے کہا، ’’ مجھے سمجھ ہی نہیں آ رہا کہ اتنی بڑی مصیبت کس طرح نازل ہو سکتی ہے‘‘۔
دوسری جانب تاجروں نے بھی اس طویل بلیک آؤٹ پر حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ مچھلی کا کاروبار کرنے والے روبیع الاسلام نے کہا کہ کولڈ اسٹوریج کے کام نہ کرنے کی وجہ سے اسے پانچ ہزار ٹکا کا نقصان اٹھانا پڑا ہے۔
ذرائع ابلاغ کے مطابق ہسپتالوں میں کام بری طرح متاثر ہوا جبکہ متعدد شہروں میں پانی کی فراہمی بھی نہ ہو سکی۔ وزارت صحت کے مطابق ہسپتالوں میں انتہائی نگہداشت کے وارڈز کو ہنگامی جینیرٹرز کے ذریعے بجلی پہنچا دی گئی تھی تاہم عام وارڈز میں مریضوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔