بنگلہ دیش کو گولڈن جوبلی مبارک!
26 مارچ 2021کچھ عرصہ پہلے ایک ڈاکومینٹری کے سلسلے میں ڈھاکا جانا ہوا۔ شہر کے کچھ امیروں اور دیہات کے کچھ غریبوں سے ملا۔ سرکاری اہلکاروں، کاروباری لوگوں اور صحافیوں سے ملاقاتیں ہوئیں۔
بنگلہ دیش کی سماجی زندگی میں سن انیس سو اکہتر کی وہی اہمیت ہے، جو بھارت اور پاکستان میں سن انیس سو سینتالیس کی ہے۔ موضوع کوئی بھی ہو، اکثر اوقات قصہ وہیں سے شروع ہوتا ہے۔ تاریخ کے یہ وہ تکلیف دہ بھنور ہیں، جن سے بعض اوقات نکلنا مشکل ہو جاتا ہے۔
ڈھاکا یونیورسٹی میں ایک پروفیسر صاحب ملے، جنہوں نے مارچ انیس سو اکہتر میں پاکستانی فوج کے 'آپریشن سرچ لائٹ‘ میں مارے جانے والے اپنے دوستوں، ساتھیوں اور طلبا کے بارے میں بتایا۔ ایسی کارروائیوں کو دہائیاں بیت گئیں لیکن دکھ اب بھی اتنا گہرا تھا کہ بات کرتے ہوئے ان کی آنکھیں پُرنم ہوگئیں۔
وہیں ایک خاتون سماجی کارکن سے ملنے کے لیے فون کیا تو انہوں نے یہ کہہ کر معذرت کی کہ وہ پاکستانیوں سے ملنا پسند نہیں کرتیں۔
انہیں قائل کرنا پڑا کہ میں پاکستانی ضرور ہوں لیکن اُس سے پہلے ایک انسان ہوں اور صحافی بھی، جس کا کام اپنے ملک کی تاریخ کو سیکھنا، سمجھنا اور سوال کرنا ہے۔ بہرحال وہ بڑی مشکل سے ملنے پر آمادہ ہوئیں اور گھر پر چائے کی دعوت دی۔
ان کے ٹی وی لاؤنج میں ایک نوجوان کی بڑی سی بلیک اینڈ وائٹ تصویر آویزاں تھی۔ پوچھا یہ کون ہیں؟ انہوں نے بتایا کہ وہ ان کا بھائی تھا، ''وہ پاکستانی فوج میں تھا۔ جب جنگ آزادی شروع ہوئی تو وہ کومیلا کنٹونمنٹ میں تعینات تھا۔ ایک دن پاکستانی فوجیوں نے بنگالی فوجیوں کو الگ کیا، ان سے ہتھیار چھین لیے اور انہیں فائرنگ کر کے موت کی نیند سُلا دیا۔‘‘
مشرقی پاکستان میں اُس وقت ملٹری کے اندر بغاوت شروع ہو چکی تھی، جس کی سزا موت تھی۔
انہوں نے بتایا کہ اُس زمانے میں وہ محکمہ سوشل ویلفیئر میں کام کرتی تھیں۔ پاکستانی پسپائی کے بعد وہ اُن فلاحی کارکنوں میں شامل تھیں، جنہوں نے فوجی بنکروں سے برہنہ حالت میں ریپ کا شکار ہونے والی کئی عورتوں کو بازیاب کرایا۔ انہوں نے کہا کہ سن اکہتر میں انہوں نے اپنی آنکھوں سے جو وحشت دیکھی، اس کے بعد وہ پاکستانیوں سے ملنا بلکل پسند نہیں کرتیں۔
ایسا نہیں کہ یہ جنگی مظالم یک طرفہ تھے۔ مسلح علیحدگی پسندوں نے بھی پاکستان کے حامی بے گناہ شہریوں کو سرعام قتل کیا اور گاؤں کے گاؤں جلا دیے تھے لیکن بنگلہ دیش میں آپ کو اس ذکر کم ہی ملتا ہے۔
اس دورے میں مجھے ایک حکومتی وزیر سے بھی تفصیلی گفتگو کا موقع ملا۔ وہ جنگِ آزادی کے دوران پاکستانی ایئر فورس میں تھے لیکن پھر فوج چھوڑ کر بنگالیوں کی مسلح علیحدگی پسند تنظیم مُکتی باہنی کے کمانڈر بن گئے۔
انہوں نے بتایا کہ لڑائی شروع ہونے کے چند ماہ بعد اگر بھارت مُکتی باہنی کو ہتھیار اور سرحد پار کیمپوں میں مسلح تربیت فراہم نہ کرتا تو شاید بنگلہ دیش کی آزادی کا خواب ادھورہ رہ جاتا۔ انہوں نے تسلیم کیا کہ اُس وقت ''بھارت نے جس طرح ہماری مدد کی اس کے لیے ہم ہمیشہ اس کے شکر گزار رہیں گے۔‘‘
سن اکہتر میں نو ماہ کی خانہ جنگی اور ہزاروں ہلاکتوں کے بعد جب بنگلہ دیش دنیا کے نقشے پر ابھرا، تو مغربی پاکستان میں بنیادی طور پر تین طرح کا ردعمل تھا۔
ہمارے یہاں بہت سارے عام لوگ ایسے تھے، جو فوجی سینسر شپ کے باعث وہاں جاری خون ریزی کے حقائق سے بے خبر اور غافل رہے۔ دوسرے وہ تھے، جو ملک دو لخت ہوتا دیکھ کر سخت رنج و غم میں تھے۔ تیسرے وہ تھے، جنہوں نے بنگالیوں کو ہمیشہ پرایا اور بوجھ سمجھا اور یہ سوچ کر سُکھ کا سانس لیا کہ "چلو اِن سے جان چھوٹی۔"
یہ تیسری سوچ پاکستان میں طاقت اور اقتدار کے نشے میں چور طبقے کی تھی، جس نے ملک کا مشرقی حصہ ہار کر بھی کچھ نہ سیکھا۔ اپنی پسپائی کے باوجود اُس وقت ہمارے آقاؤں کا خیال تھا کہ بنگلہ دیش زیادہ عرصہ نہیں چل سکے گا۔ وہ خطہ سیلابوں اور طوفانوں کا مرکز تھا اور وہاں بھوک، بدحالی اور بیماری کے سوا کچھ نہ تھا۔
آزادی کے چند برسوں کے اندر نئے ملک کے بانی شیخ مجیب الرحمان اور ان کے اہل خانہ قتل کر دیے گئے، ماسوائے ان کی دو صاحبزادیوں شیخ حسینہ اور ریحانہ کے، جو بچ گئیں۔ اس کے بعد بنگلہ دیش میں سولہ سال تک فوج کا اقتدار رہا۔ اس دور میں عوامی لیگ کے مقابلے میں بیگم خالدہ ضیا کی بی این پی اور قیام بنگلہ دیش کی مخالف جماعت اسلامی کو سیاسی میدان میں فروغ ملا۔
صدر جنرل ارشاد کے اقتدار کے خاتمے کے بعد بنگلہ دیش کو بلآخر جمہوریت کی پٹڑی پر چڑھنے کا موقع ملا۔ ایک لمبی آمریت کے بعد یہ سفر آسان نہ تھا۔ سن 1991 سے لے کر 2009ء تک بی این پی اور عوامی لیگ کے درمیان محاذ آرائی چلتی رہی۔ آئے دن کی ہڑتالیں، اقتدار کی کھینچاتانی، پارلیمان کا بائیکاٹ اور انتقامی کارروائیاں معمول بن کر رہ گئیں۔
لوگ سیاست سے تنگ تھے لیکن معاشی اور سماجی طور پر بنگلہ دیش بہتری کے راستے پر نکل پڑا۔ ٹیکسٹائل کی پیداوار اور برآمدات بڑھنے لگیں۔ فیکٹریوں اور صنعتوں میں لوگوں کو روزگار ملنے لگا۔ تعلیم اور صحت کے میدان میں بہتری آنا شروع ہوئی۔ خواتین کے حقوق اور فیملی پلاننگ میں بنگلہ دیش کی مثالیں دی جانے لگیں۔
پاکستان اور بنگلہ دیش کبھی ایک ملک تھے لیکن اب ان کی منزلیں الگ الگ تھیں۔ پاکستان کے فوجی حکمرانوں نے اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے ملک کو پڑوسیوں کے ساتھ جنگ و جدل میں جھونک دیا۔ ہم دنیا میں مذہبی انتہاپسندی اور جہاد کا گڑھ بنتے چلے گئے۔
بیرونی طاقتوں نے بنگلہ دیش میں بھی مذہبی انتہاپسندی کو فروغ دینے پر کام کیا لیکن ریاست نے کبھی عسکریت پسندی کو خارجہ پالیسی کا حصہ نہیں بننے دیا۔
ملک کی دونوں بیگمات شیخ حسینہ اور خالدہ ضیا پر کرپشن اور خراب طرز حکمرانی کے الزامات لگتے رہے لیکن اسے جواز بناکر فوج کبھی اقتدار پر قبضہ نہ کر سکی۔ بنگلہ دیش کے بھارت کے ساتھ شروع سے سرحدی تنازعات بھی رہے لیکن سیاسی قیادت نے ان کا حل جنگ و جدل میں نہیں ڈھونڈا۔
ایسا نہیں کہ بنگلہ دیش میں آج سب اچھا ہے۔ پچھلے دس گیارہ سال میں بنگلہ دیش بظاہر شیخ حسینہ کی 'سویلین آمریت‘ کا شکار ہوتا گیا ہے۔
انسانی حقوق پر قدغنیں بڑھتی گئی ہیں۔ سیاسی تنقید کچلنے کے لیے اظہار آزادی کے کڑے قوانین متعارف کرائے گئے ہیں۔ اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت بی این پی کا صفایا کر دیا گیا ہے اور جماعت اسلامی کے کئی سینئر اراکان کو متنازعہ عدالتی کارروائیوں کے بعد پھانسیاں دی جا چکی ہیں۔ عدلیہ، میڈیا اور پارلیمان اس وقت شیخ حسینہ کے ذاتی مفادات کے تابع نظر آتے ہیں۔
ان سیاسی چیلنجوں سے قطع نظر، پچھلے پچاس سال میں بنگلہ دیش نے سماجی اور معاشی میدان میں بہت کچھ حاصل کیا ہے، جس پر فخر کرنا اس کا حق ہے۔ آزادی کے وقت وہ دنیا کا ایک مفلس ملک تھا۔ آج بنگلہ دیش برصغیر کے دوسری بڑی معیشت بن چکا ہے۔ بنگلہ دیش کے اس سفر سے ہم کافی کچھ سیکھ سکتے ہیں، بشرطیکہ ہم اپنی اصلاح پر تیار ہو جائیں۔