بنگلہ دیش کی آبادی میں تیز رفتار اضافہ کیسے روکا گیا؟
15 نومبر 2019جرمن نشریاتی ادارے 'ڈوئچلنڈ رنڈفنک‘ کے ساتھ ایک انٹرویو میں جرمن وزیر برائے ترقیات گیرڈ میولر نے افریقہ میں بلند شرح پیدائش پر تشویش کا اظہار کیا۔ ان کاکہنا تھا کہ افریقہ میں خواتین کی تعلیم، صحت اور بچوں کی نگہداشت کے شعبوں میں بہتری کی ضرورت ہے اور اسی طرح شرح پیدائش میں کمی لائی جا سکتی ہے۔
انہوں نے بنگلہ دیش میں بچوں کی پیدائش کی شرح میں ریکارڈ کمی لائے جانے کی تعریف کی۔ گزشتہ پانچ دہائیوں میں 160 ملین آبادی کے ملک بنگلہ دیش نے اس شعبے میں غیرمعمولی پیش رفت دکھائی ہے۔ میولر نے کہا، ''گزشتہ پچاس برسوں میں بنگلہ دیش میں پیدائش کی شرح فی خاتون سات بچوں سے کم ہو کر دو اعشاریہ ایک بچے تک پہنچ گئی ہے۔ یہ قریب یورپی اوسط کے برابر ہے۔ بلند شرح پیدائش میں کمی براہ راست خواتین کی بہتر تعلیم، ملازمت کے مواقع اور صحت کی سہولیات تک رسائی سے جڑی ہے۔‘‘
طویل المدتی منصوبہ بندی
سن 1971 میں ایک آزاد ریاست کے بہ طور قائم ہونے والے بنگلہ دیش میں خاندانی منصوبہ بندی کے پروگرامز پر عمدہ انداز سے عمل درآمد کیا گیا ہے۔ اس کا مقصد ملکی آبادی میں تیز رفتار اضافے کو روکنا تھا۔ ملکی اور غیرملکی غیرسرکاری تنظیموں کی مدد سے حکام نے عوامی آگہی کی گھر گھر مہم جاری رکھی۔
ڈھاکا یونیورسٹی کے پروفیسر برائے پاپولیشن سائنسز امین الحق کے مطابق، ''بنگلہ دیش نے خاندانی منصوبہ بندی کے طریقہ ہائے کار اور خدمات میں بھاری سرمایہ کاری کی ہے۔ ہر اہل جوڑا خاندانی منصوبہ بندی سے متعلق مواد حاصل کرتا ہے، جو مقامی ہیلتھ ورکرز کی مدد سے ان تک پہنچایا جاتا ہے۔ اس سے آبادی میں تیز رفتار اضافے کو روکنے میں مدد ملی ہے۔‘‘
عالمی بینک کے اعداد و شمار کے مطابق بنگلہ دیش میں فی خاتون بچوں کی شرح پیدائش چھ اعشاریہ نو تھی جو دو ہزار سترہ میں دو اعشاریہ چھ تک پہنچ چکی ہے۔
ایک مشکل کام
بنگلہ دیش کی ایک سو ساٹھ ملین آبادی میں سے نوے فیصد مسلمان ہیں، جن میں بڑی تعداد قدامت پسندوں کی ہے۔ ستر اور اسی کی دہائی میں مبصرین اور سماجی حقوق کے کارکنوں کے لیے شادی شدہ خواتین، خصوصی طور پر دیہی علاقوں سے تعلق رکھنے والی خواتین کو خاندانی منصوبہ بندی سے متعلق شعور و آگہی دینے میں مشکلات کا سامنا تھا۔
کشورگنج شہر میں خاندانی منصوبہ بندی کے شعبے سے وابستہ افسر سعیدالرحمان کے مطابق، ''ہمیں تب زیادہ تر مذہبی رہنماؤں کی جانب سے مزاحمت دیکھنے کو ملتی تھی۔ خاندان کے مرد ہمیں خواتین سے دور رکھتے تھے۔ مگر پھر حکوت کی جانب سے مسلم، ہندو اور دیگر مذہبی رہنماؤں کو خاندانی منصوبہ بندی سے متعلق کورسز کروائے گئے۔ اس طرح اس مہم کا راستہ ہموار کیا گیا۔ پھر ان مذہبی رہنماؤں نے بھی سمجھ لیا کہ جب کسی کے پاس بڑے خاندان کی نگہداشت کی صلاحیت نہ ہو تو ایسے میں چھوٹا گھرانہ بہتر ہوتا ہے۔‘‘
رحمان کے مطابق خواندگی میں اضافے کے ذریعے بھی شرح پیدائش کو قابو میں لانے میں مدد ملی ہے۔
ماہرین کا خیال ہے کہ بنگلہ دیش کا میڈیا خصوصاﹰ سرکاری نشریاتی اداروں نے اس معاملے میں عوامی آگہی میں اضافہ کرنے میں عمدہ خدمات انجام دی ہیں۔ بنگلہ دیش میں میڈیا لوگوں کو مسلسل سمجھاتا آیا ہے کہ مالیاتی بوجھ سے بچنے اور بچوں کی بہتر دیکھ بھال اور نگہداشت کے لیے خاندانی منصوبہ بندی بہت ضروری ہے۔
عرفات الاسلام، ع ت، ش ح