بنگلہ دیش: ہندو کے قتل کے بعد مسیحی خاندان کے گھر پر حملہ
3 مئی 2016ملکی دارالحکومت ڈھاکا سے منگل تین مئی کو ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق بنگلہ دیش ایک مسلم اکثریتی ملک ہے، جہاں مذہبی اقلیتوں پر کیے جانے والے پرتشدد حملوں کی حالیہ لہر شہری حقوق کے کارکنوں کے لیے بالعموم اور اقلیتی شہریوں کے لیے بالخصوص تشویش کا باعث بنتی جا رہی ہے۔
اس تازہ واقعے میں، جو پیر اور منگل کی درمیانی شب بارہ بجے کے بعد پیش آیا، نامعلوم حملہ آوروں نے ملک کے مغرب میں چُوآندانگا کے علاقے میں زیادہ تر مسیحی اقلیتی آبادی والے ایک گاؤں میں ایک گھر کو نشانہ بنایا۔ اس حملے میں اس گھر پر دیسی ساخت کا ایک بم پھینکا گیا، جس کی وجہ سے ہونے والے دھماکے میں عالم موندول نامی ایک ایسا 45 سالہ شہری زخمی ہو گیا، جو اس وقت اپنے گھر کے برآمدے میں سو رہا تھا۔
اس حملے کے بعد علاقے کے لوگ جاگ گئے اور انہوں نے حملہ آوروں کا پیچھا کرنے کی کوشش کی۔ اس دوران حملہ آوروں نے اپنا پیچھا کرنے والے دیہاتیوں پر بھی چند دیسی بم پھینکے، جن کے پھٹنے کے نتیجے میں ایک دوسرا شخص بھی زخمی ہو گیا۔
اے ایف پی نے علاقے کے ایک اعلیٰ پولیس افسر لیاقت حسین کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے، ’’دونوں زخمیوں کا تعلق اس گاؤں میں رہنے والی مسیحی مذہبی اقلیت سے ہے۔‘‘ دوسری طرف مقامی پولیس کے ضلعی سربراہ رشیدالحسن نے کہا کہ یہ حملہ ممکنہ طور پر ’ڈکیتی کی ایک ناکام واردات‘ تھی۔ انہوں نے کہا کہ حملہ آوروں نے ’گھر میں داخل ہو کر رقم اور زیورات مانگنے کی کوشش‘ کی تھی۔
اے ایف پی کے مطابق بنگلہ دیش میں مسیحی اقلیت پر یہ نیا حملہ ایک ایسے وقت پر کیا گیا ہے، جب حالیہ عرصے میں ملک کے مختلف حصوں میں بڑھتی ہوئی مسلم عسکریت پسندی کے تناظر میں مسیحی باشندوں، ہندوؤں اور دیگر اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے افراد پر بار بار کئی حملے دیکھنے میں آ چکے ہیں۔
بنگلہ دیش کو اپنے ہاں عسکریت پسند مسلم گروپوں، جن میں سے کئی کو حکام پہلے ہی ممنوع قرار دے چکے ہیں، کی طرف سے ایسی پرتشدد کارروائیوں اور حملوں کا سامنا ہے، جن میں کئی افراد مارے بھی جا چکے ہیں۔
شدت پسند مسلمانوں کے گروپوں کی طرف سے متعدد سیکولر بلاگرز کے قتل کے حالیہ واقعات کے بعد ایسا ہی ایک واقعہ ابھی گزشتہ ہفتے کے روز بھی پیش آیا تھا، جس میں اسلام پسندوں نے ایک 50 سالہ ہندو درزی کو قتل کر دیا تھا۔ اس قتل میں ملوث حملہ آوروں کی تعداد تین تھی اور اس کی ذمے داری خود کو بنگلہ دیش میں ’اسلامک اسٹیٹ‘ یا داعش قرار دینے والے عسکریت پسند گروپ نے قبول کر لی تھی۔
بعد ازاں اس جہادی گروہ کی طرف سے یہ بھی کہا گیا تھا کہ اس ہندو درزی کو اس لیے قتل کیا گیا کہ وہ مبینہ طور پر ’پیغمبر اسلام کے بارے میں توہین آمیز باتیں‘ کرنے کی وجہ سے جانا جاتا تھا۔
اے ایف پی کے مطابق گزشتہ ہفتے بنگلہ دیش میں ہم جنس پرست افراد کے حقوق کے لیے کام کرنے والے دو افراد کو بھی قتل کر دیا گیا تھا، جس کی ذمے داری دہشت گرد نیٹ ورک القاعدہ کی بنگلہ دیشی شاخ نے قبول کر لی تھی۔ اس سے محض چند روز قبل ایک لبرل یونیورسٹی پروفیسر کو بھی قتل کر دیا گیا تھا۔
اس جنوبی ایشیائی ملک میں گزشتہ تین برسوں کے دوران مشتبہ مسلم عسکریت پسندوں کی طرف سے کم از کم 30 افراد کو قتل کیا جا چکا ہے۔ یہ ہلاک شدگان یا تو مذہبی اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے افراد تھے یا پھر ایسے لبرل، سیکولر بلاگرز اور سماجی کارکن یا دانشور، جن کا طرز فکر مسلم عسکریت پسندوں کی سوچ سے متصادم تھا۔