بنگلہ دیش: 71ء کی جنگ کے سلسلے میں ابتدائی وارنٹ گرفتاری جاری
26 جولائی 2010گرفتاری کے یہ وارنٹ بنگلہ دیش کی مذہبی سیاسی پارٹی جماعت اسلامی کے چار سینئر رہنماؤں کے خلاف جاری کئے گئے ہیں، جن پر اکہتر کی جنگ کے دوران نسل کُشی، جنسی تشدد، قتل اور دوسرے جنگی جرائم میں ملوث ہونے کا الزام ہے۔ بنگلہ دیش حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس جنگ کے دوران تقریباً تیس لاکھ افراد ہلاک ہوگئے تھے۔
جماعت اسلامی کے چار رہنماؤں کو، جن میں جماعت کے سربراہ مطیع الرحمان نظامی، پارٹی کے سیکریٹری جنرل علی احسن محمد مجاہد اور دو دوسرے اہم رہنما محمد قمرالزمان اور عبدالقادر ملا بھی شامل ہیں، جنہیں پہلے ہی تحویل میں لیا جا چکا ہے۔
جماعت کے سربراہ مطیع الرحمان نظامی کو 29 جون کو عوام کو مذہبی طور پر مشتعل کرنے کے جرم میں گرفتار کر لیا گیا تھا۔ جبکہ دوسرے رہنماؤں کو جولائی کے اوائل میں 27 جون کی ملک گیر ہڑتال کے دوران تشدد کو ہوا دینے کے جرم میں گرفتار کر لیا گیا تھا۔
ان مقدمات کے چھ سرکاری وکلاء میں سے ایک عبد الرحمان حولادر نے اے ایف پی کو بتایا کہ انہوں نے عدالت کو ان چار رہنماؤں کی گرفتاری کا حکم جاری کرنے کا مشورہ اُن پر قتل، نسل کُشی، جنسی تشدد، آتش زنی اور انسانیت کے خلاف جرائم میں مرتکب ہونے کے تحت دیا ہے، جس پر اب عدالت نے عمل درآمد کیا ہے۔
شیخ مجیب الرحمان نے بھی، جنہیں 1975ء میں ایک فوجی انقلاب کے دوران قتل کر دیا گیا تھا، جنگی جرائم میں ملوث افراد پر مقدمات چلانے کا عزم کیا تھا۔ بنگلہ دیش کی موجودہ خاتون وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد کے مطابق اُن کے والد شیخ مجیب الرحمان کے قتل میں بھی جنگی جرائم میں ملوث انہی افراد کا ہاتھ ہے۔ فوجی انقلاب کے نتیجے میں برسر اقتدار آنے والی حکومت کے دوران تقریباً گیارہ ہزار مشتبہ افراد کر رہا کر دیا گیا تھا۔
ایک پرائیویٹ تحقیقاتی گروپ نے اکہتر کی جنگ کے دوران مجموعی طور پر 1775 افراد کے جنگی جرائم کے مرتکب ہونے کی نشاندہی کی ہے، جن میں پاکستان کے اعلٰی فوجی افسران کے ساتھ ساتھ جماعت اسلامی کے مقامی رہنما بھی شامل ہیں۔ بنگلہ دیشی حکومت کے مطابق یہ مقدمات پاکستانی جرنیلوں اور فوجی افسروں کے خلاف نہیں بلکہ صرف اُن بنگلہ دیشی شہریوں کے خلاف چلائے جائیں گے، جنہوں نے 1971ء میں پاکستانی فوج کا ساتھ دیا تھا اور انسانیت کے خلاف جرائم کا ارتکاب کیا تھا۔
رپورٹ: بریخنا صابر
ادارت: امجد علی