بنیاد پرستاوں کی مساجد بند کر دیں گے، آسٹریا
6 نومبر 2020آسٹریائی دارالحکومت ویانا سے جمعہ چھ نومبر کو وزارتِ داخلہ نے اعلان کیا ہے کہ بنیاد پرستانہ مذہبی نظریات کی افزائش کرنے والی مساجد پر تالے ڈال دیے جائیں گے۔ اس اقدام کے حوالے سے چانسلر سیباستیان کُرس کے دو وزراء (وزرائے داخلہ اور انضمام) نے ملکی صدر سے ملاقات کر کے ان کو اعتماد میں لیا۔ اس ملاقات کو آسٹریائی میڈیا نے 'کرائسس میٹنگ‘ کا نام دیا ہے۔
چند مساجد کی بندش کا یہ حکومتی اقدام پیر دو نومبر کو ملکی دارالحکومت میں واقع ایک یہودی عبادت گاہ کے قریب ہونے والے ایک خونی جہادی حملے کے تناظر میں کیا گیا۔ اس حملے میں چار افراد ہلاک اور تیئیس زخمی ہوئے تھے۔ حملے میں ملوث بیس سالہ جہادی پولیس کی گولی کا نشانہ بن گیا تھا۔ یہ جہادی مقدونیہ اور آسٹریا کی دوہری شہریت رکھتا تھا۔
مساجد کی بندش کا فیصلہ
ویانا حکومت کے فیصلے کا اعلان وزیر داخلہ کارل نیہمیر اور انضمام کی خاتون وزیر سوزانے راب نے ایک پریس کانفرنس میں کیا۔ یہ بھی بتایا گیا کہ حکومت ملک کی مسلمان کمیونٹی کے ساتھ مساجد کی بندش کے معاملے پر بات چیت بھی جاری رکھے ہوئے ہے۔ اس تناظر میں جاری کیے گئے بیان میں واضح کیا گیا کہ مساجد کی بندش کا فیصلہ اس لیے کیا گیا کہ ان میں ایسے امور اور سرگرمیاں جاری رکھی گئی تھیں جو مروجہ مذہبی نظریات اور دستور کے تحت متعارف کرائے گئے ضوابط کی خلاف ورزی تھی۔ رواں ہفتے کے دوران ہونے والے حملے کے بعد جرمنی، فرانس اور آسٹریا کی مسلم برادری میں تشویش پائی جاتی ہے۔
مشتبہ افراد کی تلاش
دریں اثنا ویانا حملے کی منصوبہ بندی میں ملوث ہونے والے افراد کی تلاش کا دائرہ جرمنی تک پھیلا دیا گیا ہے۔ جرمن پولیس نے چار افراد کے گھروں پر چھاپے مارے ہیں۔ یہ چھاپے شمالی شہروں اوسنا برک، کاسل اور پینے برگ میں مارے گئے۔ پولیس نے بتایا کہ ان افراد کو مشتبہ نہیں قرار دیا گیا لیکن ان کے مشتبہ جہادی حملہ آور کے ساتھ رابطے تھے۔ ان میں سے دو نے تو ہلاک ہونے جہادی کے ساتھ ملاقات بھی کی تھی۔ اس حملے میں ملوث ہونے کے شبے میں پندرہ افراد آسٹریا اور دو سوئٹزرلینڈ میں حراست میں لیے جا چکے ہیں۔
مسجدیں بند کرنے کا سابقہ اقدام
یہ امر اہم ہے کہ گزشتہ برس آسٹریا کے چانسلر سیباستیان کرس نے سات مسجد اور دس آئمہ کو بیدخل کرنے کا فیصلہ کیا تھا لیکن عدالتی فیصلے کی وجہ سے اس پر عمل نہیں ہو سکا تھا۔ ایک ترک مسجد جولائی میں حکومتی اقدامات پر عمل کرنے کے بعد کھول دیا تھا۔ ویانا سے وزارت ثقافت اور داخلہ کے مطابق ان مساجد کی سرگرمیاں قانونی تقاضوں کے مطابق نہیں تھیں۔ ان میں کم از کم چھ مساجد کا انتظام عرب آبادی کی نگرانی میں تھا۔ اس حکومتی فیصلے کی راہ میں ایک عدالتی حکم کھڑا ہو گیا تھا۔
ع ح، ب ج (اے ایف پی، روئٹرز)
ویانا حملہ: ’یہ جنگ تہذیب اور بربریت کے مابین ہے،‘ چانسلر کُرس
اسلام کے نام پر دہشت گردی کا نشانہ ہمارا طرز زندگی ہے، شوئبلے