بوسنی جنگ میں مسلمانوں کا قتل عام، سرب جنرل ملاڈچ کو عمر قید
22 نومبر 2017ہالینڈ کے شہر دی ہیگ میں اقوام متحدہ کے سابق یوگوسلاویہ کے لیے جنگی جرائم کے ٹریبیونل نے بدھ بائیس نومبر کے دن بوسنی سرب جنرل ملاڈچ کو عمر قید کی سزا سنا دی۔ اس حتمی عدالتی فیصلے کے مطابق ملاڈچ پر یہ الزام ثابت ہو گیا تھا کہ وہ انیس سو بانوے سے انیس سو پچانوے تک جاری رہنے والی بوسنیا کی جنگ کے دوران جنگی جرائم کا مرتکب ہوا اور نسل کشی میں بھی ملوث رہا تھا۔ اس پر اس حوالے سے گیارہ الزامات عائد کیے گئے تھے۔
دی ہیگ کی عدالت میں ملاڈچ کا ہنگامہ
راتکو ملاڈچ کا مقدمہ پیر سے پھر شروع ہو گا
جنرل راتکو ملاڈچ سابق بوسنی سرب رہنما راڈووان کراڈچچ کا آرمی چیف تھا، جس نے سربیا کی جنگ کے دوران کراڈچچ کی فوج کی کمان سنبھال رکھی تھی۔ کراڈچچ کے حکم پر ہی جنرل ملاڈچ اور اس کی فوج نے سابق یوگوسلاویہ سے آزادی کا اعلان کرنے والی مسلم ریاست بوسنیا ہیرسے گووینا کے دارالحکومت ساراژیوو کا 43 مہینوں تک محاصرہ کیے رکھا تھا، جسے جدید جنگی تاریخ کا طویل ترین محاصرہ قرار دیا جاتا ہے۔ اس دوران 1995ء میں سربرینتسا میں آٹھ ہزار مسلمانوں کا قتل عام بھی کیا گیا تھا۔
اقوام متحدہ کی خصوصی بین الاقوامی فوجداری عدالت برائے سابق یوگوسلاویہ (ICTY) کے مطابق 75 سالہ ملاڈچ پر یہ جرم بھی ثابت ہو گیا کہ اس نے ساراژیوو کے محاصرے کے دوران شہری علاقوں پر شیلنگ کے احکامات بھی جاری کیے تھے۔ بتایا گیا ہے کہ ملاڈچ کی طرف سے اس عدالتی فیصلے کے خلاف اپیل کی جا سکتی ہے۔
ملاڈچ کو سن دو ہزار گیارہ میں گرفتار کیا گیا تھا جبکہ اس کے خلاف عدالتی کارروائی کا آغاز سن دو ہزار بارہ میں ہوا تھا۔ سن انیس سو پچانوے میں جنگ کے خاتمے کے بعد سے ملاڈچ سربیا میں ہی روپوشی کی زندگی بسر کر رہا تھا۔ سیاسی مبصرین نے ملاڈچ کو سزا سنائے جانے کو سراہا ہے۔ ان ماہرین کا کہنا ہے کہ اس طرح سربیا کی جنگ میں متاثر ہونے والے افراد کو انصاف مل گیا ہے۔