بچوں سے زیادتی کےخلاف پوپ کامذمتی خط اور ردعمل
24 مارچ 2010گزشتہ قریب ڈیڑھ سال کے دوران مختلف ملکوں میں کیتھولک کلیسا کے مذہبی اور تعلیمی اداروں میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے اتنے زیادہ واقعات سامنے آئے کہ اس وجہ سے کلیسائے روم کی ساکھ واضح طور پر متاثر ہوئی۔ یہ واقعات کسی ایک ملک یا شہر میں نہیں بلکہ کئی ملکوں میں دیکھنے میں آئے، جن کی تعداد ہزاروں میں بنتی ہے۔ ان ملکوں میں جرمنی، آسٹریا، ہالینڈ اور آئرلینڈ بھی شامل ہیں۔
آئرلینڈ میں تو ان تکلیف دہ حقائق کے 2009 میں منظرعام پر آنے کے بعد ایک طوفان کھڑا ہو گیا تھا۔ اس لئے کہ یورپی یونین کے رکن اس ملک میں 1930 سے لے کر 2009 تک کی آٹھ دہائیوں میں بہت سی کلیسائی شخصیات ہزاروں بچوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بناتی رہیں۔
ویٹی کن سے توقع
آئرلینڈ میں اس سکینڈل کے منظرعام پر آنے کے بعد وقفے وقفے سے متعدد اعلیٰ کلیسائی نمائندے اپنے عہدوں سے مستعفی بھی ہو گئے تھے۔ ان حالات میں ویٹی کن میں پاپائے روم سے یہ توقع بھی کی جانے لگی تھی کہ وہ ان واقعات پر سخت موقف اختیار کرتے ہوئے واضح کریں کہ کیتھولک کلیسا ایسے واقعات کی مذمت اور مستقبل میں ان کی روک تھام کے لئے کس طرح کے اقدامات کا ارادہ رکھتا ہے۔ پھر 17 مارچ کو کلیسائے روم کے سربراہ پوپ بینے ڈکٹ شانزدہم نے یہ اعلان کیا کہ وہ عنقریب ہی آئرلینڈ میں تمام سرکردہ کیتھولک مذہبی شخصیات کو ایک خط لکھیں گے، جس میں بچوں سے جنسی زیادتی کے واقعات سے پیدا ہونے والی صورتحال کا احاطہ کیا جائے گا۔
پوپ کے اس تاریخی خط کا بڑی بے چینی سے انتظار کیا جانے لگا تھا۔ 20 مارچ کو پاپائے روم نے اپنا یہ خط نہ صرف لکھا بلکہ اس کی تفصیلات بھی شائع کر دی گئیں۔ پاپائے روم نے اپنے اس خط میں، جس کی کیتھولک کلیسا کی تاریخ میں پہلے کوئی مثال نہیں ملتی، بچوں سے جنسی زیادتی کے ان واقعات پر نہ صرف گہرے افسوس کا اظہار کیا بلکہ یہ بھی کہا کہ وہ ذاتی طور پر شرمندہ ہیں کہ ایسے واقعات کو قبل از وقت روکا نہ جا سکا۔
پاپائے روم کا اظہار شرمندگی
آئرلینڈ کے کیتھولک بشپس کے نام اس خط میں پوپ کا پیغام بہت واضح تھا۔ انہوں نے بچوں سے جنسی زیادتی کے کسی بھی شکل میں رونما ہونے والے جملہ واقعات پر معذرت کی اور کہا کہ آئرش کلیسا کو اپنی تاریخ کے ان تاریک لمحات پر شرمندگی کے علاوہ احیاء کا ایک باقاعدہ عمل بھی شروع کرنا ہو گا۔ کلیسائی اصطلاح میں کسی بھی بشپ کے زیر اثر علاقے کو diocese کہا جاتا ہے۔ پوپ نے اپنے خط میں یہ اعلان بھی کیا کہ ویٹی کن کی طرف سے آئرلینڈ میں ہر اس diocese میں مکمل چھان بین کرائی جائے گی، جہاں بچوں سے جنسی زیادتی کے واقعات رونما ہوئے۔
یہی نہیں پوپ نے بچوں کے جنسی استحصال کے ان واقعات کو بڑا جرم اور سنجیدہ نوعیت کے مجرمانہ فعل کا نام دیتے ہوئے آئرلینڈ میں اعلیٰ کلیسائی نمائندوں کو یہ ہدایات بھی جاری کیں کہ جنسی زیادتی کے واقعات کی تحقیقات کے سلسلے میں قانون نافذ کرنے والے مقامی اداروں اور آئرلینڈ کی عدلیہ کے ساتھ بھی مکمل تعاون کیا جائے۔
کلیسائی احیاء کی کوشش
پوپ کے اس خط کے بعد آئرلینڈ میں کیتھولک چرچ کے سربراہ کارڈینل شان بریڈی نے کہا کہ کلیسائے روم کے سربراہ کا یہ مکتوب کلیسائی احیاء کی کوششوں کے سلسلے میں مرکزی پیش رفت کی حیثیت رکھتا ہے۔ شمالی آئرلینڈ میں 20 مارچ ہفتے کے روز ایک بہت بڑے مذہبی اجتماع میں پوپ کا خط پڑھ کر سناتے ہوئے کارڈینل بریڈی نے کہا: ’’پاپائے روم نے لکھا ہے کہ صرف ایسے فیصلہ کن اقدامات ہی، جو مکمل ایمانداری اور شفافیت کے ساتھ کئے جائیں، آئرلینڈ کے عوام کے کیتھولک کلیسا پر اعتماد اور اس چرچ کے وقار کو بحال کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔ پاپائے روم نے یہ بھی لکھا ہے کہ تمام بشپس کو اپنی احتساب کی سوچ کا اعادہ کرنا چاہیے۔‘‘
اس خط کا ایک اقتباس پڑھ کر سناتے ہوئے کارڈینل بریڈی نے کہا: ’’پاپائے روم کہتے ہیں کہ جو پادری یا دیگر مذہبی شخصیات بچوں سے بدسلوکی کی مرتکب ہوئیں، انہوں نے ان بچوں اور ان کے والدین کے اس اعتماد کو دھوکہ دیا، جو ان پر کیا گیا تھا۔ ایسے تمام افراد کو خدا کے سامنے بھی جواب دہ ہونا پڑے گا، اور انہیں آئرلینڈ میں مروجہ قوانین کے مطابق وہاں کی عدالتوں کو بھی جواب دینا ہو گا۔ پوپ کے بقول ایسے تمام مجرم کیتھولک چرچ کے لئے شرمندگی اور بے عزتی کا باعث بنے اور ان کے جرائم سے چرچ کو شدید نقصان پہنچا۔‘‘
متاثرین کو ملاقات کی دعوت
پاپائے روم نے اپنے اس خط میں جنسی زیادتی کا شکار بننے والے افراد کو ذاتی سطح پر ملاقاتوں کی پیشکش بھی کی تاکہ ان کے دکھوں کا ازالہ کیا جا سکے۔ شمالی آئرلینڈ میں کیتھولک کلیسا کے سربراہ کارڈینل بریڈی نے پوپ کے خط کا ایک اور حصہ پڑھ کر سناتے ہوئے کہا: ’’پاپائے روم نے یہ اعتراف کیا ہے کہ جنسی زیادتی کے شکار ان افراد کے لئے ماضی اور حال کتنا تکلیف دہ ہو گا۔ ان میں سے کئی متاثرین کے لئے تو آج کسی چرچ کے دروازے تک جانا بھی بہت تکلیف کا باعث ہوتا ہو گا۔ پوپ کو اس شدید دکھ کا بھی احساس ہے جس کا سامنا ایسے بچوں کے والدین کو کرنا پڑا، حالانکہ جس ماحول میں ان بچوں پر ظلم کیا گیا وہ ان کے لئے محفوظ ترین ماحول ہونا چاہیے تھا۔‘‘
پوپ کے خط پر ردعمل
آئرلینڈ میں پوپ کے اس خط پر رد عمل ملا جلا تھا۔ کلیسائی اداروں میں مذہبی شخصیات کی طرف سے جنسی زیادتی کے شکار افراد کی سب سے بڑی آئرش تنظیم One in Four کے سربراہ Maeve Lewis نے کہا کہ انہیں پوپ کے پیغام سے نا امیدی ہوئی ہے۔ خاص طور پر اس وجہ سے کہ سالہاسال تک جاری رہنے والے ان جرائم اور ان کو چھپانے کی مسلسل کوششوں کی کافی مذمت نہیں کی گئی۔
جنسی زیادتی کا شکار ہونے والے ایک شخص کولم اوگور مان نے کہا کہ اس نے کیتھولک چرچ میں ایسے واقعات کی طویل عرصہ قبل ذاتی طور پر نشاندہی کر دی تھی۔ اوگورمان کہتے ہیں: ’’کیتھولک چرچ میں ان واقعات کو شعوری طور پر ایک منظم انداز میں پوشیدہ رکھا گیا تاکہ چرچ کی طاقت اور اس کی دولت کے لئے کوئی خطرہ پیدا نہ ہو۔‘‘
ایک برطانوی صحافی جو طویل عرصے تک ایسے واقعات کے بارے میں رپورٹنگ کرتے رہے، کہتے ہیں کہ پوپ کا پیغام کامیاب تو رہا لیکن اسے قطعی طور پر کامیاب نہیں کہا جا سکتا۔ رابرٹ پِگٹ نامی اس برطانوی صحافی کا کہنا ہے: ’’اس پیغام کے سلسلے میں پوپ کی سنجیدگی اور جنسی زیادتی کے واقعات پر ان کے غم وغصے اور شرمندگی کے احساس کے بارے میں کسی شک وشبہے کا اظہار نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن اس کے باوجود کئی لوگ ناامید بھی ہوئے ہیں کیونکہ یہ خط ان مطالبوں کو بھی پورا نہیں کرتا جو چند متاثرین کی طرف سے کئے گئے تھے۔‘‘
تحریر: مقبول ملک
ادارت: کشور مصطفیٰ