بچوں کے جنسی استحصال کے خلاف جرمن ماڈل منصوبے کی بڑی کامیابی
26 اکتوبر 2016اس بارے میں ڈوئچے ویلے کے کائی الیگزانڈر شولس اپنے ایک مراسلے میں لکھتے ہیں کہ اگر اب تک کے منصوبوں پر پروگرام کے مطابق عمل درآمد جاری رہا تو اگلے پانچ برسوں کے اندر اندر بچوں سے جنسی زیادتی کے مرتکب یا ایسے ذہنی رحجانات کے حامل افراد کے نفسیاتی علاج یا تھیراپی کے اخراجات ان کی ہیلتھ انشورنس کمپنیوں کی طرف سے ادا کیے جانے کا عمل بھی شروع ہو جائے گا۔
اس کا مطلب یہ ہو گا کہ تب طبی اور تحقیقی ماہرین کی یہ موجودہ سوچ عملاﹰ تسلیم کر لی جائے گی کہ بچوں سے جنسی زیادتی کا عمل یا ایسا نفسیاتی رویہ دراصل کوئی جرم نہیں بلکہ ایک بیماری کی تشخیص ہے، جس کے بعد متعلقہ فرد کا علاج کیا جانا چاہیے۔
جرمن دارالحکومت برلن کے شارِیٹے (Charité) ہسپتال کے جنسی بیماریوں اور جنسی طبی تحقیق کے ادارے کے سربراہ پروفیسر کلاؤس بائیر کے مطابق بچوں کے جنسی استحصال کے مرتکب یا ایسی سوچ رکھنے والے مرد، جنہیں ’پِیڈوفائل‘ کہا جاتا ہے، ایسے افراد ہوتے ہیں جنہیں بلوغت سے پہلے کی عمر کے بچوں سے اپنے لیے جنسی تحریک ملتی ہے۔
کلاؤس بائیر کے مطابق اس کا مطلب یہ نہیں کہ ’پِیڈوفائل‘ سوچ کا حامل کوئی مرد واقعی کسی بچے سے جنسی زیادتی کے جرم کا مرتکب بھی ہوا ہو۔ تاہم اکثر واقعات سے یہ ثابت ہو چکا ہے کہ بچوں سے جنسی زیادتی کے مرتکب وہی مرد ہوتے ہیں، جن کے ذہنوں میں ایسی سوچ پائی جاتی ہے، جو نفسیاتی طور پر دراصل ایک قابل علاج مرض ہے۔
برلن کے پروفیسر بائیر جرمنی میں اس شعبے میں تحقیق اور ایک بڑے امدادی پروگرام کے بانیوں میں سے ہیں۔ انہوں نے 2005ء میں برلن میں واقع جرمنی کے سب سے بڑے ہسپتال ’شارِیٹے‘ میں ایک منصوبے کا آغاز کیا تھا، جسے ’بچوں سے جنسی زیادتی کی روک تھام کے پروجیکٹ‘ کا نام دیا گیا تھا۔
اس پروجیکٹ کا محور وہ مرد ہوتے ہیں، جو یا تو بچوں سے جنسی زیادتی کے مرتکب ہو چکے ہوتے ہیں یا ایسا کر سکتے ہیں۔ اس طبی اور نفسیاتی امدادی پروگرام کو کامیابی اس لیے ملی کہ اس میں حصہ لینے والے مردوں کا نفسیاتی علاج بالکل مفت کیا جاتا ہے، ان کی شناخت کے بارے میں معالج مکمل رازداری سے کام لیتے ہیں اور ان کے خلاف کوئی قانونی کارروائی بھی نہیں کی جاتی۔
یہ سب کچھ اس لیے کہ ایسے مرد خود کو رضاکارانہ طور پر علاج کے لیے پیش کرتے ہیں اور یوں مستقبل میں ایسے افراد کے ہاتھوں بچوں سے جنسی زیادتی کے ممکنہ واقعات کو ان کے رونما ہونے سے پہلے ہی روک دیا جاتا ہے۔
اب یہ پروجیکٹ پھیل کر پورے جرمنی میں ایک ایسے نیٹ ورک میں تبدیل ہو چکا ہے، جس کا نام ہے: Kein Täter werden یا ’مجرم نہ بنیے۔‘ اس نیٹ ورک کے روح رواں ابھی تک پروفیسر بائیر ہیں اور اس وقت اس پر جرمنی کے 11 شہروں میں کام کیا جا رہا ہے۔
اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ ماضی میں کئی برس پہلے اگر اس منصوبے کے بارے میں شکوک و شبہات کا اظہار کیا جاتا رہا تھا، تو آج اسی بارے میں پروفیسر بائیر کے ساتھ رابطوں میں فن لینڈ، برطانیہ، سویڈن، امریکا، فلپائن اور بھارت تک سے کئی مرد اس پروجیکٹ میں شمولیت کی خواہش ظاہر کرتے ہیں یا وہاں کی مختلف طبی اور سماجی امدادی تنظیموں کی خواہش ہوتی ہے کہ اسی طرح کے منصوبے ان کے ملکوں میں بھی شروع کیے جائیں۔
پروفیسر کلاؤس بائیر کے مطابق اس کامیابی کا سبب یہ ہے کہ بالغ مردوں میں نابالغ بچوں کے ساتھ جنسی رابطوں کی خواہش ایک ایسا مسئلہ ہے جو کسی ایک خاص جغرافیائی علاقے کا مسئلہ نہیں بلکہ دنیا بھر میں پایا جاتا ہے۔ ان کے مطابق شماریاتی لحاظ سے دنیا بھر میں اوسطاﹰ ہر 100 مردوں میں سے ایک مرد ’پِیڈوفائل‘ ذہنی رجحانات کا حامل ہوتا ہے۔
2005ء میں اس منصوبے کے آغاز کے تین سال بعد وفاقی وزارت انصاف کی طرف سے اس کے لیے مالی تعاون شروع کر دیا گیا تھا، جو اب آٹھ سال بعد اس لیے عنقریب ہی ختم کر دیا جائے گا کہ جرمن قوانین کے مطابق ایسے کسی بھی منصوبے کی لامحدود عرصے کے لیے مالی سرپرستی نہیں کی جا سکتی۔
لیکن ایک اچھی بات یہ ہے کہ اگے چند ہفتوں سے اسی منصوبے کے لیے وفاقی وزارت صحت کی طرف سے پانچ سالہ مالی تعاون شروع کر دیا جائے گا۔ اس منصوبے کی کامیابی اور افادیت کے پیش نظر یہ بات بھی اہم ہے کہ اب تک اس پروجیکٹ کے لیے اگر قریب 1.4 ملین یورو فراہم کیے جاتے تھے، تو وفاقی وزارت صحت اس کے لیے آئندہ ہر سال پانچ ملین یورو فراہم کرے گی تاکہ بچوں کے خلاف جنسی جرائم کو ان کے ارتکاب سے پہلے ہی ممکنہ مجرموں کے طبی نفسیاتی علاج کے ذریعے روکا جا سکے۔