1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارتی انتخابات اور پاکستان

تنویر شہزاد12 مئی 2014

دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہلانے والے ملک بھارت میں انتخابی عمل کا آج آخری مرحلہ مکمل ہو گیا ہے۔ پاکستانی عوام ان انتخابات کے حوالے سے مختلف سوچ رکھتے۔

https://p.dw.com/p/1ByOe
تصویر: UNI

بھارتی انتخابات کے حوالے سے پاکستان میں ملے جلے خیالات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ سیاستدانوں، صحافیوں اور سفارت کاروں سمیت ہر شخص اپنے اپنے انداز میں بھارتی انتخابات کا جائزہ لے رہا ہے۔ امن کے لیے کام کرنے والے سوچ رہے ہیں کہ ان انتخابات سے ابھرنے والی بھارتی قیادت خطے میں امن کے لیے پاکستان کے حوالے سے کس قسم کی پالیسی اپنائے گی۔ تاجر اور سرمایہ کار ان انتخابات کے بعد پاک بھارت تجارتی تعلقات کے بارے میں سوچ رہے ہیں تو سفارت کار ان انتخابات کے پاک بھارت جامع مذاکرات پر اثرات کا جائزہ لے رہے ہیں۔

پاک بھارت امور کے ایک ماہر اور روزنامہ ایکسپریس کے سینیئر کالم نگار سلمان عابد نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پاکستان کے لیے بھارتی انتخابات ہمیشہ اہم رہے ہیں: ’’ان انتخابات کے حوالے سے پاکستانیوں کو یہ تشویش ہے کہ بھارت کے سخت گیر ہندو رہنما نریندر مودی کے بھارتی وزیر اعظم بننے کی صورت میں پاک بھات تعلقات کو بہتر بنانے کی کوششوں پر کیا اثر پڑے گا۔ دوسرے پاکستان میں کچھ لوگوں کا یہ بھی خیال ہے کہ بھارتی انتخابی مہم میں شدت کے ساتھ پاکستان مخالف جذبات ابھارے جانے کے حوالے سے بھارتی رائے عامہ کو جس بلندی پر پہنچا دیا گیا ہے، نئی بھارتی حکومت کے لیے رائے عامہ کو پاک بھارت دوستی کی طرف لانا آسان نہیں ہو گا۔‘‘

’’پاکستانی بھارتی انتخابات میں مسلم آبادی کے کردار اور عام آدمی پارٹی کی خبروں کو بہت دلچسپی سے دیکھ رہے ہیں‘‘
’’پاکستانی بھارتی انتخابات میں مسلم آبادی کے کردار اور عام آدمی پارٹی کی خبروں کو بہت دلچسپی سے دیکھ رہے ہیں‘‘تصویر: Reuters

ممتاز ماہر سیاسیات پروفیسر سجاد نصیر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اندرونی مسائل میں گھرے ہوئے پاکستان میں بھارتی انتخابات زیادہ تر لوگوں کی نظروں سے تقریبا اوجھل ہیں اور میڈیا میں بھی عمومی خبروں کے علاوہ کوئی لمبی چوڑی بحثیں نظر نہیں آ رہیں۔ ان کے بقول، ’’پاکستانی بھارتی انتخابات میں مسلم آبادی کے کردار اور عام آدمی پارٹی کی خبروں کو بہت دلچسپی سے دیکھ رہے ہیں۔‘‘

ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ بھارتی انتخابات کے تناظر میں ماہر سیاسیات کے لیے یہ سوال بڑی دلچسپی کا حامل ہے کہ کونسا سیاسی نظام ملکوں کو ترقی سے ہمکنار کر سکتا ہے۔ اس حوالے سے آسیان، چین، بھارت اور مغربی ملکوں کے نظام کےحوالوں کے ساتھ ماہرین کی رائے منقسم ہے۔

پاکستان کے سابق سینیئر سفارتکاراقبال احمد خان کہتے ہیں۔ ’’بھارت پاکستان کا اہم ہمسایہ ہے اور پاکستانی کشمیر، پانی، سرکریک، سیاچن اور دیگر مسائل کے حل کے لیے بھارتی انتخابات کے بعد برسراقتدار آنے والی قیادت کے بارے میں کافی دلچسپی لے رہے ہیں۔‘‘ ان کےخیال میں پاک بھارت جامع مذاکرات کے آغاز کے حوالے سے بھی ان انتخابات کے نتائج اہمیت کے حامل ہوں گے۔

اقبال احمد خان کے مطابق، ’’ایک ایسے وقت میں جب پاکستان میں انتخابی اصلاحات کی بات ہو رہی ہے، بھارتی انتخابات کے باقاعدگی سے انعقاد، ان انتخابات کی شفافیت کے لیے الیکٹرانک مشینوں کے استعمال اور الیکشن کمیشن کے آزادانہ اور خودمختارانہ رول کے حوالے سے پاکستان بہت کچھ سیکھ سکتا ہے۔ ‘‘

روزنامہ جنگ کے کالم نگار ارشاد احمد عارف نے ڈی ڈبلیو کو بتایا: ’’بھارتی انتخابات کی مہم میں پاکستان مخالف جذبات کو ہوا دینے کا عمل پاکستانیوں کے لیے تشویش کا باعث ہے۔‘‘ ان کے بقول 67 سال سے بھارت میں انتخابات ہو رہے ہیں۔ اتنا عرصہ گزرنے کے باوجود بھارتی انتخابات میں موروثی سیاست اور بھاری سرمائے کااستعمال بھی دیکھا جا رہا ہے۔