بھارتی سپریم کورٹ کا صحافی محمد زبیر کو رہا کرنے کا حکم
20 جولائی 2022سپریم کورٹ نے کسی کو گرفتار کرنے کے لیے اپنے اختیارات کا بے جا استعمال کرنے پر اتر پردیش پولیس پر تنقید کرتے ہوئے محمد زبیر کو ضمانت پر آج بدھ کو ہی رہا کرنے کا حکم دے دیا۔ عدالت نے کہا، ''یہ ایک مسلمہ اصول ہے کہ گرفتاریو ں کے اختیارات کو تحمل سے استعمال کیا جانا چاہیے۔ زیر سماعت کیس میں انہیں قید میں رکھنے کا کوئی جواز نہیں بنتا۔ اور نہ ہی انہیں مختلف عدالتوں کے لامتناہی چکر لگانے پر مجبور کیا جا سکتا ہے۔‘‘
بھارتی عدالت عظمیٰ نے فیکٹ چیکنگ ویب سائٹ آلٹ نیوز کے شریک بانی محمد زبیر کے خلاف یو پی حکومت کی جانب سے شروع کردہ خصوصی تفتیش پر بھی روک لگا دی اور ریاست اتر پردیش سے تمام کیسز دہلی منتقل کرنے کا حکم دے دیا۔
’صحافی کو ٹویٹ کرنے سے کیسے روک سکتے ہیں؟‘
عدالت نے اتر پردیش حکومت کی اس درخواست کو مسترد کر دیا کہ محمد زبیر کی طرف سے ٹویٹس کیے جانے پر پابندی لگا دی جائے۔ جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ کا کہنا تھا، ''یہ تو کچھ ایسا ہی ہے کہ کسی وکیل سے کہا جائے کہ وہ بحث نہ کرے۔ ہم ایک صحافی کو یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ وہ لکھیں نہیں اور نہ ہی کوئی بات کہیں؟‘‘
جسٹس چندرچوڑ نے مزید کہا، ''اگر وہ قانون کی خلاف ورزی کرتے ہیں تو قانون کے سامنے جواب دہ ہیں۔ لیکن ہم کسی شہری کو اپنی بات کہنے سے پہلے ہی اس کے خلاف پیشگی کارروائی کا حکم کیسے دے سکتے ہیں؟ ہم ایسا کوئی حکم نہیں دے سکتے۔‘‘
عدالت نے یہ حکم بھی دیا کہ اگر اسی طرح کے معاملے پر زبیر کے خلاف کوئی دوسرا کیس درج کیا جاتا ہے، تو ان کیسز میں بھی اس ضمانت کا اطلاق ہوگا۔ سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ اسی طرح کے ایک معاملے میں زبیر کو دہلی کی ایک زیریں عدالت پہلے ہی ضمانت دے چکی ہے۔
محمد زبیر کو گرفتار کیوں کیا گیا تھا؟
شہر بنگلورو کے رہنے والے اور پیشے کے لحاظ سے ٹیلی کمیونیکیشن انجینئر، 39 سالہ محمد زبیر کے خلاف دہلی پولیس نے 20 جون کو ایک کیس درج کیا تھا۔ یہ کیس چار برس قبل کی ایک ٹویٹ کی بنیاد پر درج کیا گیا تھا، جس میں زبیر نے 1983 کی ایک فلم 'کسی سے نہ کہنا‘ کا ایک ویڈیو کلپ پوسٹ کیا تھا۔ اس میں دکھایا گیا تھا کہ 'ہنی مون ہوٹل‘ کا نام بدل کر 'ہنومان ہوٹل‘ کر دیا گیا ہے۔
زبیر نے اس تصویر کو پوسٹ کرتے ہوئے لکھا تھا، ''2014 سے پہلے ہنی مون ہوٹل، 2014 کے بعد ہنومان ہوٹل۔‘‘ خیال رہے کہ نریندر مودی سن 2014 میں وزیر اعظم کے عہدے پر فائز ہوئے تھے اور ان کے حامیوں کا کہنا تھا کہ اس تصویر کے ذریعے وزیر اعظم مودی پر طنز کیا گیا ہے۔ 'ہنومان بھکت‘ نامی ایک صارف نے شکایت کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس ٹویٹ سے ان کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچی ہے۔ دوسری طرف پولیس یہ پتہ بھی نہیں چلا سکی کہ 'ہنومان بھکت‘ کون ہے اور آیا درحقیقت اس کا کوئی وجود بھی ہے؟
بعد میں ہندو قوم پرست جماعت بی جے پی کی قیادت والی اتر پردیش حکومت نے محمد زبیر کے خلاف مختلف شہروں میں چھ الگ الگ کیس درج کرا دیے۔ حالانکہ دہلی میں درج کیس کے معاملے میں انہیں پہلے ہی ضمانت مل گئی تھی، تاہم اتر پردیش میں درج کیس کی بنیاد پر انہیں دوبارہ جیل میں ڈال دیا گیا تھا۔ سپریم کورٹ نے آج بدھ کے روز محمد زبیر کے خلاف اتر پردیش میں درج چھ کیسز میں بھی انہیں عبوری ضمانت دے دی۔
شدت پسند ہندو تنظیمیں محمد زبیر اور آلٹ نیوز سے کافی پریشان ہیں۔ 2017 میں اپنے آغاز کے بعد سے ہی اس فیکٹ چیکنگ ویب سائٹ نے کئی ایسے دعووں کی قلعی کھول دی، جن سے حکمران جماعت کی سبکی ہوئی۔ وہ ان ویڈیوز اور پیغامات کی حقیقت کو بھی سامنے لائے، جن میں بالخصوص مسلمانوں کو ہدف بنایا گیا تھا۔
پیغمبر اسلام کو توہین کا معاملہ
دراصل سارا معاملہ اس وقت شروع ہوا جب بی جے پی کی سابق ترجمان نوپور شرما کے ایک ٹی وی مباحثے کے دوران پیغمبر اسلام کے حوالے سے دیے گئے متنازعہ ریمارکس کو محمد زبیر نے ٹویٹ کر دیا۔
اس ریمارکس کی وجہ سے بھارت کو سفارتی سطح پر اور بالخصوص اسلامی ملکوں میں کافی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ کئی ملکوں نے بیانات جاری کر کے بھارت سے سخت کارروائی کا مطالبہ کیا۔ قطر نے تو معافی کا مطالبہ بھی کر دیا تھا۔ کئی ملکوں نے اپنے ہاں بھارتی سفیروں کو طلب کر کے احتجاج بھی کیا۔
انہی واقعات کے دوران محمد زبیر کو مذہبی جذبات مجروح کرنے کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا۔ ان کی گرفتاری کی بھارت میں داخلی کے علاوہ بین الاقوامی سطح پر بھی مذمت کی گئی اور انہیں فوراً رہا کیے جانے کے مطالبے بھی کیے گئے۔
دوسری طرف پیغمبر اسلام کی توہین کے معاملے میں نوپور شرما کے خلاف بھی کیس درج کیا گیا تاہم وہ روپوش رہیں اور اب سپریم کورٹ نے ان کی گرفتاری پر 10اگست تک کے لیے روک لگا دی ہے۔