1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارتی سیاست میں انتخابی نشانات کی ثقافتی اور مذہبی اہمیت

28 جنوری 2024

مذہبی عقائد اور ثقافتی اقدار کا بھارتی سیاسی پارٹیوں کے انتخابی نشانوں پر بڑا گہرا اثر رہا ہے۔ ڈی ڈبلیو آج ان پارٹیوں کے انتخابی نشانات کے پیچھے کار فرما خیالات کا تفصیلی جائزہ لے رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/4blVB
Indien Wahlen
تصویر: Getty Images/AFP/P. Paranjpe

 بھارت میں منفرد سماجی اور مذہبی علامتوں کا ایک وسیع خزانہ موجود ہے، جیسا کہ کنول کا پھول، اوم کا روایتی نشان اور سورج۔ ان علامات نے ثقافت اور سماجی عقیدوں کو تصویری شناخت سے نوازا ہے۔

بھارتی انتخابات میں یہ روایتی نشانات سیاسی منظر نامے پر اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ 1,200 سے زائد سیاسی جماعتوں کی پہچان انہی سیاسی نشانات کے ذریعے ہی ہوتی ہے۔

سیاسی پارٹیوں کے لیے یہ انتخابی نشان اتنے ضروری کیوں؟

مصنف اور صحافی نیلنجن مکوپادھیائے نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "جب یہ جماعتیں ان سیاسی نشانات کا انتخاب کرتی ہیں، تو وہ بنیادی طور پر عوام سے مضبوطی سے جڑنے کی کوشش کرتی ہیں۔"

بھارت میں اس وقت برسراقتدار بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اور مرکزی حزب اختلاف انڈین نیشنل کانگریس (آئی این سی) یہ سیاسی نشان کئی سالوں سے بدل رہے ہیں۔ ہر ایک پارٹی کی بھرپور کوشش ہے کہ وہ ووٹروں تک اپنی اپیل کو زیادہ موثر طریقے سے پہنچائے۔

Indien politische Symbole
بھارتی سیاسی پارٹیوں کے انتخابی نشان ووٹرز سے جڑے رہنے کا ایک ذریعہ ہوتے ہیں۔تصویر: Indranil Aditya/NurPhoto/picture alliance

تقسیم اور انضمام کی داستانیں

اگرچہ کچھ پارٹیاں شروع سے ہی ایک انتخابی نشان پر اکتفا کیے بیٹھی ہیں لیکن بی جے پی اور آئی این سی کے پاس تقدیر اور چہروں کو بدلنے کی گھمبیر کہانیاں موجود ہیں۔

1885 میں اپنے قیام کے بعد سے کانگریس کی ساخت کی تنظیم نو کے کئی مراحل اور یہ پارٹی تین سیاسی علامتوں کے کٹھن سفر سے گزری ہے۔

بی جے پی، بھارتیہ سنگھ پارٹی سے الگ ہوکر 1980 میں قائم کی گئی تھی۔ بھارتی سنگھ پارٹی 1951 میں بنائی گئی تھی۔ بھارت کے پہلے عام انتخابات کے لیے دونوں جماعتوں نے اپنے پہلے سے منتخب شدہ سیاسی نشان کے ساتھ حصہ لیا تھا۔

ابتدائی سیاسی علامات

آئی این سی کی توجہ صرف دو بیلوں والے نشان پر رہی۔ ان کی توجہ واضح طور پر بھارت کے سوشلسٹ مستقبل پر تھی۔

دوسری طرف بی جے ایس، جس کی بنیاد ڈاکٹر سیاما پرساد مکھرجی نے رکھی تھی، ہندو نواز گروپ راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے سیاسی ونگ کے طور پر قائم کی گئی تھی۔

بی جے ایس کا انتخابی نشان تھا ایک جلتا ہوا دیا، یہ اس کے ہندو ووٹروں کے لیے فوری طور پر قابل شناخت ہے۔ مندر میں پوجا کے دوران استعمال ہونے والے یہ دیے ہندو مذہب سے تعلق رکھنے والے ووٹرز کے لیے ایک خاص اہمیت رکھتے ہیں۔

بھارتی سیاست اور گائے کا مقدس نشان 

1971 تک آئی این سی نظریاتی اختلافات کی وجہ سے پرانے محافظوں اور نوجوان خاتون سیاست دان اندرا  گاندھی کی پیروی کرنے والوں کی تقسیم کے باعث اس سیاسی پارٹی کا ایک نیا دھڑ وجود میں آیا جسے گانگریس آر کا نام دیا گیا۔

بھارتی رہنماؤں کے متنازعہ بیانات کے خلاف احتجاجی مظاہرے

آنے والے انتخابات کے لیے پارٹی کے ایک نئے نشان کی ضرورت تھی اور اندرا گاندھی نے بچھڑے کو دودھ پلانے والی گائے کے نشان کا انتخاب کیا۔

کنول کا پھول اور پھیلی ہتھیلیاں

1970 سے لے کر 1980 تک بھارتی سیاست نے اتار چڑھاؤ کے دور دیکھے۔ آئی این سی پہلے جنرل الیکشنز میں ناکام ہوئی  اور بی جے پی ایک نئے رہنما، اٹل بہاری واجپائی  اور ایک نئے نشان کے ساتھ مرکزی اپوزیشن پارٹی کے طور پر ابھری۔

آئی این سی نے اپنی کھوئی ہوئی ساکھ کو بحال کرنے کی کوششوں میں ایک نیا انتخابی نشان کا چنا، ایک پھیلی ہوئی ہھتیلی۔

جنوبی بھارت کے ہیے ماں امبیکا مندر سے تعلق رکھنے والے وی مرلی دھرا نے ہندوستان ٹائمز کو دیے گئے اپنے انٹرویو کہا تھا کہ یہ نشان اسی مندر سے متاثر ہو کر لیا گیا ہے۔

مرلی دھرا نے مزید کہا کہ اس وقت اقتدار کی دوڑ سے باہر اندرا گاندھی نے اگلے عام انتخابات میں کانگریس پارٹی کے نشان کے طور پر یہی نشان استعمال کیا تھا۔

اس کے مقابلے میں بی جے پی کے نارنجی کنول کے بارے میں خیال کیا گیا کہ اس کے چناؤ کے پیچھے کارفرما عناصر کچھ خاص واضح نہیں تھے۔ تاہم اس کے مقابلے میں گلابی کنول ایشیائی  ممالک میں انتہائی مقبول ہے۔ اس پھول کو ہندو مذہب میں دیوی اور دیوتا مراقبے کے وقت ہاتھ میں تھام کر رکھتے ہیں۔ اس کے برعکس نارنجی رنگ کو ہندو سنیاسی اپنے لباس میں استعمال کرتے ہیں اور شاید یہی خیال نارنجی کنول کے نشان کے انتخاب کی وجہ بھی ٹہرا تھا۔

 

حالیہ دنوں میں حکمران پارٹی بی جے پی نے اپنے انتخابی نشان کو سرکاری دستاویزات پر بھی استعمال کیا ہے۔ سن 2019 میں اسے بھارتی پاسپورٹ پر اور حال ہی میں سربراہی اجلاس جی 20 میں استقبالیہ پر اس سیاسی نشان کا استعمال واضح دیکھا جاسکتا تھا۔

جوانا بینرجی فشر  (ر ب/ ع ب)