بھارتی صحافی صدیق کپّن کو ضمانت مل گئی، جلد رہائی کی امید
24 دسمبر 2022کیرالا سے تعلق رکھنے والے صحافی صدیق کپن کو الہ آباد ہائی کورٹ نے جمعے کے روز منی لانڈرنگ کیس میں بھی ضمانت دے دی، جس سے فی الحال ان کی رہائی کا راستہ ہموار ہوگیا ہے۔ تین ماہ قبل انہیں غیر قانونی سرگرمیوں اور دیگر الزامات کے تحت عائد کیسز میں بھی ضمانت مل چکی ہے۔
ایک مقامی ملیالی نیوز چینل سے وابستہ کپن کو پانچ اکتوبر 2020ء کو اترپردیش کے ضلعے ہاتھرس میں اجتماعی ریپ کا شکار ایک لڑکی کی خودکشی کے واقعے کی رپورٹنگ کے لیے دہلی سے جاتے ہوئے گرفتار کرلیا گیا تھا۔ اتر پردیش پولیس نے الزام لگایا تھا کہ کپن اور ان کے تین دیگر ساتھی ہاتھرس اجتماعی ریپ کیس کی آڑ میں تشدد پھیلانا چاہتے تھے اور اس کے لیے انہیں مبینہ طور پر غیر قانونی فنڈ مہیا کیا گیا تھا۔
بھارت میں دو برس کے دوران صحافیوں پر 256 حملے، رپورٹ
پولیس نے کپن پر ممنوعہ تنظیم پیپلز فرنٹ آف انڈیا کا رکن ہونے اور متعدد دیگر دفعات کے تحت بھی الزامات عائد کیے۔ یوگی ادیتیہ ناتھ کی صوبائی حکومت کی شدید مخالفت کے باوجود گزشتہ نو ستمبر کو اس ملسمان صحافی کو ان کیسز میں سپریم کورٹ سے ضمانت مل گئی تھی۔ تاہم ایک مقامی عدالت نے منی لانڈرنگ کیس میں ضمانت خارج کردی تھی لیکن جمعے کے روز الہ آباد ہائی کورٹ نے اس کیس میں بھی ضمانت منظور کرلی۔
بھارت: صحافی صدیق کپّن کی فوری رہائی کا مطالبہ
ہائی کورٹ نے ضمانت منظور کرتے ہوئے کہا، "اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ملا کہ صدیق یا اس کے ساتھی عتیق الرحمان کے کھاتے میں پانچ ہزار روپے کے علاوہ کوئی اور رقم منتقل کی گئی۔"
کیا کپّن رہا ہو جائیں گے؟
بھارتی صحافیوں اور صحافتی انجمنوں نے الہٰ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے پر خوشی کا اظہار تو کیا ہے تاہم انہوں نے یہ خدشہ بھی ظاہر کیا کہ بی جے پی حکومت کے سابقہ رویے کو دیکھتے ہوئے فی الحال انہیں مکمل اطمینان نہیں ہے۔
دہلی جرنلسٹس ایسوسی ایشن کے صدر ایس کے پانڈے نے ڈی ڈبلیو اردو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا ہم ابھی کچھ نہیں کہہ سکتے، جب تک کپّن جیل سے باہر نہیں آجاتے یقینی طور پر کچھ بھی کہنا مشکل ہے۔ ہم ان کا انتظار کر رہے ہیں۔"
بھارت: کشمیر میں صحافیوں اور میڈیا کے گرد گھیرا تنگ کیوں ہوتا جا رہا ہے؟
شہریت ترمیمی قانون کے خلاف دہلی میں مظاہروں میں شامل ہونے کے الزام میں ہفتوں جیل میں گزارنے والی سماجی کارکن صفورا زرگر نے صدیق کپن کی ضمانت ملنے پر ایک ٹویٹ کرکے کہا،"صحافی صدیق کپن کو 809 دن قید میں گزارنے کے بعد پی ایم ایل اے(منی لانڈرنگ) کیس میں ضمانت مل گئی ہے۔ انہیں اب اپنی زندگی کے بقیہ ایام عدالت کے کمرے کا چکر لگانے میں گزارنے پڑیں گے، جب تک وہ تمام الزامات سے بری نہ کر دیے جائیں۔ یہ سب سسٹم کا کھیل ہے۔"
صدیق کپن کی اہلیہ کے خدشات
صدیق کپن کی اہلیہ ریحانہ صدیق نے کہا کہ اپنے شوہر کو ضمانت ملنے پر وہ خوش تو ہیں لیکن پوری طرح مطمئن نہیں ہیں اور انہیں اب بھی یہ خدشہ لگا ہوا ہے کہ حکومت کہیں ایک بار پھر کوئی روکاوٹ نہ کھڑی کر دے۔
ریحانہ صدیق کا کہنا تھا، "غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کیس میں انہیں (کپن کو) سپریم کورٹ نے ستمبر میں ہی ضمانت دے دی تھی لیکن اب تک ضمانتی کارروائیاں مکمل نہیں ہوسکی ہیں۔ پولیس کا کہناتھا کہ اسے کوئی ایسا ضامن چاہئے جو یوپی کا رہنے والا ہو، ہمارے لیے یہ بہت مشکل تھا۔ بہر حال دو افراد ضمانت لینے کے لیے تیار ہوگئے۔"
صدیق کپن کے وکیل محمد دانش نے بتایا، ''نو ستمبر کو سپریم کورٹ کے فیصلے کے 10دن کے اندر ہی ہم نے ضامن فراہم کردیے تھے لیکن اس کی تصدیق کا کام اب تک مکمل نہیں ہو سکا ہے۔‘‘
کیا مودی حکومت نے صحافیوں اور کارکنوں کی جاسوسی کرائی؟
ریحانہ صدیق کا مزید کہنا تھا،"اگر اس مرتبہ بھی اسی طرح کی کوئی شرط عائد کردی گئی تو ہمیں ایک بار پھر اترپردیش سے ضمانت لینے والے افراد کو تلاش کرنا پڑے گا۔ امید ہے کہ اس مرتبہ ہمیں کم مشکلات کا سامنا کرنا پڑے۔"
ریحانہ صدیق نے کہا،"مجھے اسی وقت یقین ہوگا جب صدیق رہا ہو کر میرے پاس آجائیں گے۔ لیکن مجھے امید ہے کہ دیر سے ہی سہی تاہم ہمیں انصاف ضرور ملے گا۔"
' یہ سلسلہ کب تک جاری رہے گا'
معروف بھارتی صحافی رعنا ایوب نے ایک ٹویٹ کرکے سوال کیا، "صدیق کپّن اور ان کے اہل خانہ کے ساتھ جو غیر انسانی سلوک روا رکھا گیا، بھارتی مدیران، پریس سے وابستہ انجمنیں آخر کب اس کے خلاف متحد ہو کرآواز بلند کریں گی۔ گوری(لنکیش) کا قتل، روپیش سنگھ، فہد شاہ کی گرفتاری، ہندوستان میں پریس کی آزادی پر حملہ ہماری جمہوریت پر ایک بدنما دھبہ ہے۔
بھارت: بی جے پی لیڈر کی شکایت پر معروف صحافیوں کے گھروں پر چھاپے
سماجی کارکن سنتوش چندن نے لکھا، "حالانکہ دو قیمتی سال واپس نہیں لوٹائے جاسکتے تاہم پھر بھی یہ صدیق کپن کے لیے ایک بڑی راحت ہے جو جیل سے باہر آرہے ہیں۔ یہ تھوڑی سی تسلی بھی اس فسطائی بھارت میں ہمارے لیے بہت کچھ ہے۔ ایک جمہوری اور بہتر بھارت کے لیے ہمیں تمام سیاسی قیدیوں کی رہائی کے لیے آواز بلند کرتے رہنا ہوگا۔"