بھارتی ماؤ نوازوں نے یرغمالی پولیس افسر رہا کر دئے
6 ستمبر 2010ان تین پولیس افسران کو ان کے ایک چوتھے ساتھی سمیت ماؤنواز باغیوں نے کئی دن پہلے اغواء کیا تھا۔ پھر ان کے ان ایک ساتھی کو، جس کا نام لوکاس ٹیٹ تھا، گولی مار دی گئی تھی اور اس کی گولیوں سے چھلنی لاش حکام کو گزشتہ جمعے کے روز ایک جنگلاتی علاقے سے ملی تھی۔
اس پر بھارتی سکیورٹی دستوں اور پٹنہ میں بہار کی ریاستی حکومت نے ان باغیوں اور ان کے زیر قبضہ پولیس اہلکاروں کی تلاش کا کام اور بھی تیز کر دیا تھا۔ یوں جب ان باغیوں پر دباؤ اور بھی زیادہ ہو گیا تو انہوں نے اپنے زیر قبضہ باقی ماندہ تینوں یرغمالیوں کو رہا کرنے کا فیصلہ کیا۔
نئی دہلی سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق ماؤنواز عسکریت پسندوں نے ان تینوں پولیس اہلکاروں کو بہار کے دارالحکومت پٹنہ سے قریب 150 کلومیٹر جنوب مشرق کی طرف لکھی سرائے کے علاقے میں پیر کو علی الصبح ایک گھنے جنگلاتی علاقے میں چھوڑ دیا تھا، جہاں سے وہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کو مل گئے۔
بہار میں حکمران جماعت جنتا دل یونائیٹڈ کے ایک ترجمان شوآنند تیواڑی نے بتایا کہ حکومت نے لوکاس ٹیٹ نامی پولیس اہلکار کے قتل کے بعد ماؤنواز باغیوں کے خلاف سرچ آپریشن بہت تیز کر دیا تھا اور عسکریت پسندوں نے باقی ماندہ پولیس افسران کو اسی بڑھتے ہوئے دباؤ کے نتیجے میں رہا کرنے کا فیصلہ کیا۔
پٹنہ میں ریاستی حکومت کے اہلکاروں نے بتایا کہ باغیوں کا مطالبہ تھا کہ ان پولیس اہلکاروں کی رہائی کے بدلے ان کے آٹھ زیر حراست ساتھیوں کو رہا کیا جائے، تاہم حکومت نے باغیوں کا یہ مطالبہ پورا نہیں کیا۔ ان پولیس افسران کی رہائی کے بعد بہار میں مقامی میڈیا نے ماؤ نواز باغیوں کے ایک بیان کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ عسکریت پسندوں نے ان یرغمالیوں کو انسانی ہمدردی کی بنیاد پر رہا کیا ہے۔
ان بھارتی پولیس اہلکاروں کو ماؤنواز باغیوں نے اگست کے آخر میں بہار ہی میں لکھی سرائے کے مقام پر ایک جنگلاتی علاقے میں چھ گھنٹے تک جاری رہنے والے ایک خونریز جھڑپ کے بعد یرغمالی بنا لیا تھا۔ اس جھڑپ میں چند باغیوں کے علاوہ کم ازکم دس پولیس اہلکار بھی مارے گئے تھے۔
بھارت میں ماؤ نواز باغی تحریک بہت سی یونین ریاستوں کو متاثر کر رہی ہے، جہاں ان کے خلاف وسیع تر آپریشن بھی جاری ہیں۔ بھارت کے کل 626 انتظامی اضلاع میں سے ماؤ نواز عسکریت پسند ایک تہائی سے زیادہ اضلاع میں فعال ہیں اور ملکی وزیر اعظم من موہن سنگھ اس مسلح بغاوت کو داخلی سلامتی کے لئے سب سے بڑا خطرہ قرار دیتے ہیں۔
رپورٹ: مقبول ملک
ادارت: افسر اعوان