1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارتی پارلیمان میں سیشن کا ہنگامہ خیز آغاز

22 نومبر 2011

بھارتی پارلیمان میں موسم سرما کے سیشن کا ہنگامہ خیز آغاز ہوا ہے۔ اپوزیشن جماعتیں نئی دہلی حکومت کو مہنگائی اور انسداد بد عنوانی کے لیے نئی قانون سازی جیسے معاملات میں آڑے ہاتھوں لینے کے لیے تیار دکھائی دیتی ہے۔

https://p.dw.com/p/13El7
تصویر: DPA

منگل کو جب لوک سبھا میں کارروائی کا آغاز ہوا تو اپوزیشن نے مہنگائی کا معاملہ اٹھایا مگر اسپیکر نے وزیر داخلہ پی چدمبرم کے ساتھ سوال جواب کے لیے ایک گھنٹہ مختص کرنے کی رولنگ دی۔ شیڈول کے مطابق آج ایوان میں ایک گھنٹہ وزیر داخلہ کے ساتھ سوال و جواب کے لیے مختص تھا مگر بھارتیہ جنتا پارٹی کی سربراہی والی نیشنل ڈیموکریٹک الائنس کی اپوزیشن نے ایوان میں احتجاج شروع کر دیا۔

ریاست اتر پردیش کی تقسیم کے حوالے سے پیش کیے گئے ایک بل پر سماج وادھی پارٹی نے بھی صدائے احتجاج بلند کی اور یوں اسپیکر کو کارروائی عارضی طور پر ملتوی کرنا پڑی۔

بعد میں وزیر خزانہ پرناب مکھرجی نے اس امید کے ساتھ مہنگائی کے معاملے پر اپنا تحریری بیان پڑھ کر سنانا شروع کیا کہ شاید ایوان کی کارروائی جاری رہ سکے۔ مگر ان کی امید بے سود رہی کیونکہ سماج وادھی پارٹی اور شیو سینا کے ارکان نے تیلنگانہ نام سے نئی ریاست کے معاملے پر شور شرابہ شروع کردیا۔ بعض ارکان نے بعد میں ریاست مہاراشٹر میں کسانوں کی بدحالی پر بحث کرنا چاہی اور یوں بالآخر اسپیکر کو ایوان کی کارروائی بدھ تک کے لیے مؤخر کرنا پڑی۔ راجیہ سبھا میں بھی محض کچھ تعزیتی قراردادیں ہی منظور کی گئی۔

بھارتی اپوزیشن واضح کرچکی ہے کہ وہ ایوان میں وزیر داخلہ کو بولنے نہیں دے گی اور ان کا مکمل بائیکاٹ کیا جائے گا۔ اپوزیشن کی جانب سے ٹیلی کام کے 2G  اسکینڈل میں وزیر داخلہ اور وزیر خزانہ دونوں کو ملوث قرار دے کر ان کے استعفوں کے مطالبے کیے جارہے ہیں۔

Der indische Premierminister Manmohan Singh spricht zur Presse anlässlich der konstituierenden Sitzung des indischen Parlaments
بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ نے اپوزیشن سے اپیل کی ہے کہ وہ ایوان کی کارروائی کو چلنے دےتصویر: AP

ایوان کی کارروائی سے قبل وزیر اعظم من موہن سنگھ نے اپوزیشن سے اپیل کی تھی کہ وہ ایوان کی کارروائی کو چلنے دیں، ’’ حکومت اُن تمام امور پر بات چیت کے لیے تیار ہے، جن پر اپوزیشن بات کرنا چاہتی ہے۔‘‘ گزشتہ کئی ماہ سے ایوان میں قانون سازی کے عمل میں سست روی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ملکی ترقی، استحکام اور خوشحالی کے لیے ضروری ہے کہ ان بِلوں کو پارلیمان کی قراردادوں کی شکل دی جائے۔

یاد رہے کہ وزیر اعظم من موہن سنگھ کی حکومت پر ٹیلی کام کے اسکینڈل میں ملکی خزانے کو قریب چالیس ارب ڈالر کا نقصان پہنچانے جیسے کئی الزامات کا سامنا ہے۔ اسی طرح انسداد بد عنوانی کے لیے نئے قانون ’لوک پال‘ بِل کے لیے بھی انا ہزارے کی مہم کے بعد عوامی حمایت بہت بڑھ چکی ہے، جس کی حکومت مخالفت کر رہی ہے۔

رپورٹ : شادی خان سیف

ادارت:  ندیم گِل

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں