بھارتی کابینہ کی طرف سے اینٹی کرپشن بل کی منظوری
21 دسمبر 2011نئی دہلی سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق اس نئے قانون کے تحت ملک میں قومی سطح پر محتسب اعلیٰ کا ایک ایسا طاقتور عہدہ قائم کیا جا سکے گا، جس کا کام مشتبہ بدعنوان سرکاری ملازمین اور سینئر سیاستدانوں کا پتہ چلا کر انہیں سزائیں دلوانے کو یقینی بنانا ہو گا۔
کابینہ کے وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ کی زیر صدارت ہونے والے اجلاس میں حکومتی ارکان نے پارلیمان میں اس بارے میں ہونے والی بحثوں کے بعد ’لوک پال‘ یا محتسب اعلیٰ کے عہدے سے متعلق اس قانونی بل کو منظور کر لیا ہے۔
بھارتی دارالحکومت سے خبر ایجنسی اے ایف پی نے لکھا ہے کہ ملکی کابینہ کی طرف سے منظوری کے بعد اب یہ بل منظوری کے لیے پارلیمان میں بھیجا جائے گا۔ یہ مسودہء قانون پارلیمنٹ کے سامنے پیش کیے جانے کی اگرچہ اب تک کوئی تاریخ تو مقرر نہیں کی گئی تاہم ایک اعلیٰ حکومتی اہلکار نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اے ایف پی کو بتایا کہ ہو سکتا ہے کہ یہ بل اسی ہفتے جمعرات کے دن ایوان میں پیش کر دیا جائے۔
اس سال اگست میں معروف بزرگ سماجی کارکن انا ہزارے نے اس لیے 12 روز تک بھوک ہڑتال کی تھی کہ کرپشن کے خلاف اس پارلیمانی بل کے ابتدائی مسودے کے خلاف احتجاج کیا جا سکے ، جو اتنا بے ضرر تھا کہ تب اس بل کے ذریعے قانون سازی کے بعد بھی ہر جگہ نظر آنے والی اس بدعنوانی کو روکا نہیں جا سکتا تھا، جس کا خاتمہ اس بل کے ذریعے مقصود تھا۔
موسم گرما میں انا ہزارے کی اس احتجاجی مہم کے نتیجے مین پورے بھارت میں کئی ملین شہری اس لیے سڑکوں پر نکل آئے تھے کہ بھارتی معاشرے میں ہر جگہ پائی جانے والی بدعنوانی، رشوت اور عوام میں پائی جانے والی بد دلی کے خلاف آواز اٹھا سکیں۔
خبر ایجنسی پی ٹی آئی اور سرکاری ٹیلی وژن دور درشن کے مطابق ملک میں محتسب اعلیٰ کا جو نیا عہدہ قائم کیا جائے گا، اسے احتساب کے لیے وزیر اعظم تک رسائی تو ہو گی تاہم سربراہ حکومت کے طور پر منموہن سنگھ یا ان کی جگہ کسی بھی دوسرے سربراہ حکومت کو جواب دہ بنانے کے لیے محتسب اعلیٰ کے پاس اختیارات کافی محدود ہوں گے۔ لیکن دوسری طرف یہی بات اس لیے بھی خوش آئندہ ہے کہ حکومت نے ایک طویل عوامی مطالبہ منطور کر لیا ہے اور اب دنیا میں آبادی کے لحاظ سے اس دوسرے سب سے بڑے ملک میں کرپشن کے خلاف جنگ کو زیادہ نتیجہ خیز بنایا جا سکے گا۔
نیم سرکاری خبر ایجنسی پی ٹی آئی نے نئی دہلی سے لکھا ہے کہ ویسے تو اس کا مطالبہ انا ہزارے نے بھی کیا تھا تاہم حکومت نے وہی کیا، جو وہ چاہتی تھی۔ یعنی محتسب اعلیٰ کے دفتری اختیارات میں جو کچھ شامل نہیں ہوگا، اس میں ملک کے مرکزی تحقیقاتی ادارے سی بی آئی کا احستاب سر فہرست ہے۔
رپورٹ: مقبول ملک
ادارت: عاطف بلوچ