بھارتی کسانوں کا دہلی مارچ اور پر تشدد جھڑپیں
13 فروری 2024بھارت میں کسانوں کے اہم مطالبات کے حوالے سے حکومت اور کسان یونین کے درمیان پیر کے روز بات چیت ناکام ہوجانے کے بعد منگل کے روز 'دہلی چلو' احتجاجی مظاہرے کا آغاز ہوا، جسے روکنے کے لیے سکیورٹی فورسز نے مظاہرین پر آنسو گیس کے شیل داغے اور انہیں منتشر کرنے کی کوشش کی۔
بھارت میں کسان اتنی بڑی تعداد میں خودکشی کیوں کر رہے ہیں؟
مظاہرین حکومت کی تمام رکاوٹوں کو توڑتے ہوئے، جب پنجاب اور ہریانہ کی سرحد کو عبور کرنے کی کوشش کر رہے تھے، تبھی شمبھو بارڈر کے قریب ان کے خلاف پولیس نے کارروائی کی۔ اس سے پہلے پیر کی رات دیر گئے کسان رہنماؤں اور مرکزی وزراء کے درمیان ایک اہم میٹنگ کسی نتیجے کے بغیرختم ہو گئی تھی۔
بھارتی کسانوں نے متنازعہ زرعی اصلاحات کے خلاف ایک سالہ طویل احتجاج ختم کر دیا
تاہم حکومت کا کہنا ہے کہ زیادہ تر معاملات پر اتفاق رائے ہو گیا تھا اور جن مسائل پر اختلافات برقرار تھے، ان کے حل کے لیے ایک کمیٹی کی تشکیل دینے کا فارمولہ پیش کیا گیا تھا۔
بھارتی کسانوں کا احتجاجی مظاہرہ: پرتشدد واقعے میں آٹھ ہلاکتیں
کسانوں کے احتجاج کے بارے میں بات کرتے ہوئے وزیر زراعت ارجن منڈا نے کہا، ''حکومت کو ایسی معلومات مل رہی ہیں کہ بہت سے لوگ ماحول کو آلودہ کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں، میں کسانوں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ ایسے عناصر سے ہوشیار رہیں۔''
دہلی سخت حفاظتی حصار میں
کسان رہنما سرون سنگھ پنڈھر نے مرکزی وزراء کے ساتھ پانچ گھنٹے کی میٹنگ کے بے نتیجہ رہنے کے بعد دہلی چلو مارچ کا اعلان کیا۔ ان کا کہنا تھا، ''ہمیں نہیں لگتا کہ حکومت ہمارے کسی بھی مطالبے پر سنجیدہ ہے۔ ہمیں نہیں لگتا کہ وہ ہمارے مطالبات کو پورا کرنا چاہتی ہے۔۔۔۔ اگر حکومت ہمیں کچھ بھی پیش کرتی، تو ہم اپنے احتجاج پر دوبارہ غور کر سکتے تھے۔''
کسانوں کے احتجاج کے پیش نظر مودی حکومت نے دہلی شہر میں تمام طرح کے اجتماعات پر پابندی عائد کر دی ہے اور دہلی پولیس نے حفاظتی اقدامات کو مزید تیز کر دیا ہے۔ دارالحکومت میں نظم و نسق برقرار رکھنے کے لیے دہلی کی تمام سرحدوں کو سیل کرنے کے ساتھ ہی دفعہ 144 کو نافذ کر دیا گیا ہے۔
بھارتی پارلیمان کے نزدیک ہی کسانوں کا انوکھا احتجاج
دہلی سے متصل سنگھو، ٹکری اور غازی پور کی سرحدوں پر پولیس کی بھاری نفری تعینات ہے، جہاں سڑکوں کے بیشتر حصوں کو کنکریٹ کے بلاکس سے روکا گیا ہے اور اسے مزید مضبوط کرنے کے لیے خاردار تاروں کی باڑ بھی لگائی گئی ہے اور سڑکوں پر نکیلی میخیں گاڑ دی گئی ہیں۔
لیکن کسان دہلی کی سرحدوں پر بھاری رکاوٹوں سے بے خوف خطر ہیں اور ان کا دعوی ہے کہ وہ موقع ملتے ہی محض ''نصف گھنٹے کے اندر ہی ان رکاوٹوں توڑ دیں گے۔''
راستوں پر بندش کی وجہ سے دہلی کے آس پاس کے تمام راستوں پر ٹریفک جام ہے اور ہر جانب بھیڑ کی وجہ سے افراتفری کا ماحول ہے۔ منگل کے روز دہلی کو غازی آباد اور اتر پردیش کے نوئیڈا سے جوڑنے والے راستوں پر گاڑیوں کی لمبی لائنیں دیکھی گئیں۔
کہا جا رہا ہے کہ کسان ٹریکٹر اور ٹرالیوں کے ساتھ دہلی پہنچنے کی کوشش کر رہے ہیں اور ان کے ساتھ تقریبا چھ ماہ کا سامان بھی ہے تاکہ طویل دھرنے کی صورت میں انہیں کوئی پریشانی نہ ہو۔
کسانوں کے مطالبات کیا ہیں؟
اس احتجاجی مظاہرے میں 200 سے بھی زیادہ کسان یونین شامل ہیں اور ان کے اہم مطالبات میں سے ایک یہ ہے کہ حکومت فصلوں کے لیے کم از کم امدادی قیمت (ایم ایس پی) کی ضمانت کے لیے ایک قانون وضع کرے۔ کسانوں کا کہنا ہے کہ مارکیٹ کی غیر یقینی صورتحال کا سامنا کرنے والے کسانوں کے لیے یہ ایک اہم لائف لائن ہے۔
اہم نکات میں بجلی ایکٹ سن 2020 کی منسوخی اور احتجاج کے دوران لکھیم پور کھیری میں ہلاک ہونے کسانوں کے لیے معاوضہ، نیز کسانوں کی تحریک میں شامل افراد کے خلاف مقدمات واپس لینے جیسے مطالبات بھی شامل ہیں۔
19 نومبر سن 2021 میں وزیر اعظم نریندر مودی نے ایک اہم اعلان کرتے ہوئے اپنی حکومت کے وضع کردہ ان تین متنازعہ قوانین کو
منسوخ کر دیا تھا، جس کے خلاف کسان احتجاج کر رہے تھے۔ اس کی وجہ سے کسانوں نے دہلی کی سرحدوں پر تیرہ ماہ سے جاری اپنی احتجاجی تحریک کو ختم کر دیا تھا۔