بھارت: آبادی کے تناسب سے زیادہ مسلمان جیلوں میں
31 اگست 2020بھارت میں 2011 کی مردم شماری کے مطابق مسلمانوں کی آبادی 14.2 فیصد ہے لیکن جرائم کا ریکارڈ رکھنے والے ملک کے حکومتی ادارے این سی آر بی کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق قصوروار قرار دیے گئے مسلمانو ں کی تعداد 16.6 فیصد اور زیر سماعت قیدیوں کی تعداد 18.7 فیصد ہے۔
2019کے اعدادو شمار پر مبنی اس رپورٹ کے مطابق دیگر تمام پسماندہ طبقات میں مسلمان زیر سماعت قیدیوں کی تعداد مسلم قصوروار قیدیوں کے مقابلے زیادہ ہے۔ مسلمانوں کی آبادی 14.2 فیصد ہے جبکہ مسلم قصوروار قیدیوں کی تعداد 16.6 فیصد اور زیر سماعت قیدیوں کی تعداد 18.7 فیصد ہے لیکن دلت اور قبائلی جیسے دیگر پسماندہ طبقات میں یہ صورت حال مختلف ہے۔
انتہائی نچلی یعنی شیڈولڈ کاسٹ(ایس سی) طبقے کی آبادی 16.6 فیصد ہے۔ لیکن ایس سی قصوروار قراردیے گئے قیدیوں کی تعداد 21.7 فیصد اور زیر سماعت قیدیوں کی تعداد21 فیصد ہے۔ اسی طرح قبائلی یعنی شیڈولڈ ٹرائب (ایس ٹی) قصوروار قیدیوں کی تعداد 13.6 فیصد جبکہ زیر سماعت قیدیوں کی تعداد 10.5 فیصد ہے۔ دیگر پسماندہ طبقات (او بی سی) سے تعلق رکھنے والے قصوروار قیدیوں کی تعداد 35 فیصد اور زیر سماعت قیدیوں کی تعداد 34 فیصد ہے۔
رپورٹ کے مطابق قصوروار قرار دیے گئے مسلم قیدیوں کی سب سے زیادہ تعداد اترپردیش کی جیلوں میں ہے۔ جہاں یوگی ادیتہ ناتھ کی قیادت والی بھارتی جنتا پارٹی کی حکومت ہے۔ اترپردیش کی جیلوں میں 6098 قصوروار قرار دیے گئے مسلمان قیدی ہیں اس کے بعد مغربی بنگال (2369) اور مہاراشٹر (2114) کا نمبر ہے۔
انسانی حقوق کے کارکنان اور ماہرین قانون کا کہنا ہے کہ دراصل بھارت کا کریمنل جسٹس سسٹم ہی کہیں نہ کہیں مسلمانوں، دلتوں، قبائلیوں اور پسماندہ طبقات کے لوگوں کے تئیں متعصبانہ ہے۔
دہلی اقلیتی کمیشن کے سابق چیئرمین ڈاکٹر ظفرالاسلام خان کا کہنا تھا کہ بنیادی طور پر یہ غریبوں کا مسئلہ ہے۔ ڈاکٹر خان نے ڈی ڈبلیو اردو کے ساتھ بات چیت کرتے ہو ئے کہا”یہ صرف مسلمانوں کا ہی مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ بنیادی طورپر غریبوں کا مسئلہ ہے۔ لیکن مسلمان ہونا ایک اور اضافی جرم ہو جاتا ہے۔ اس لیے جیلوں میں وہی زیادہ ہوتے ہیں۔ باقی جو لوگ ہوتے ہیں وہ تو جیل پہنچتے ہی نہیں ہیں،خواہ وہ اربوں روپے لے کر ملک سے بھاگ گئے ہوں۔ اس سے ان پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔"
ڈاکٹر خان کے مطابق جیلوں میں مسلمانوں، دلتوں اور دیگر پسماندہ طبقات کے افراد کی زیادہ تعداد ہونے کی بنیادی وجہ سسٹم میں پائے جانے والا امتیازی اور جانبدارانہ رویہ ہے۔”چونکہ ان طبقات سے تعلق رکھنے والے زیادہ تر لوگ غریب ہوتے ہیں اس لیے یہ اپنا دفاع نہیں کرپاتے ہیں۔ ایک ہی کیس میں کسی آدمی کو آسانی سے ضمانت مل جاتی ہے اور مسلمانوں اور دوسروں کو نہیں ملتی۔ اور پھر یہ بے چارے غریب ہیں۔ اچھا وکیل کہاں سے لائیں گے۔ اچھے وکیل کے بغیر انصاف تو ملتا ہی نہیں ہے۔"
ان کا مزید کہنا تھا”پانچ پانچ سو روپے کے لیے بھی ضمانت نہیں ملتی۔ حالانکہ جیل انتظامیہ کے پاس خود بھی اس کے لیے فنڈ ہوتا ہے۔ اگر وہ چاہے تو پانچ سو، ہزار روپے خود بھی جرمانہ ادا کرسکتے ہیں لیکن وہ ایسا نہیں کرتے۔"
ماہرین کا کہنا ہے کہ یوں تو بھارت میں جیلوں میں اصلاحات کی باتیں بہت کی جاتی ہیں لیکن اس پر عمل شاذ و نادر ہی ہوتا ہے حتی کہ قیدیوں کو ان کے قانونی حقوق سے محروم رکھا جاتا ہے۔
کیا اس صورت حال میں اصلاح کا کوئی امکان ہے؟ اس سوال کے جواب میں دہلی اقلیتی کمیشن کے سابق چیئرمین ڈاکٹر ظفرالاسلام خان کا کہنا تھا ”حل یہ ہے کہ سسٹم کو سینیٹائز کیا جائے۔ یہ حکومت کا کام ہوتا ہے۔ حکومت اور وزارت قانون ریاستوں کو بار بار نوٹس بھیجے۔ ریاستی حکومتوں کو مسلسل خطوط لکھ کر اس معاملے کی طرف توجہ مبذول کرائے۔" ڈاکٹر خان کے مطابق”تاہم فی الحال جو حکومت ہے اس سے تو کوئی توقع نہیں ہے۔“
خیال رہے کہ سپریم کورٹ نے چند سال قبل ایک اہم فیصلے میں ملک کے تمام ضلعی اور سیشن ججوں کو ہدایت دی تھی کہ وہ جیلوں کا معائنہ کریں اور جن قیدیوں کا معاملہ ایک طویل عرصے سے زیر التوا ہے اور اگر انہوں نے ممکنہ سزا کا نصف وقت جیل میں گزار لیا ہو تو انہیں ذاتی مچلکے پر رہا کردیں۔
حالانکہ قانون کی رو سے بھی ان قیدیوں کو ذاتی مچلکے پر رہا کرنے کی گنجائش موجود ہے جنہوں نے ممکنہ سزا کا آدھا وقت جیل میں گزار لیا ہو لیکن طویل قانونی عمل کی وجہ سے زیر سماعت قیدی برسوں جیلوں میں بند رہتے ہیں اور ان میں سے تو بعض اپنی ممکنہ سزا کی کئی گنا مدت جیل میں گزار دیتے ہیں۔