1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت امریکہ معاہدے، اپوزیشن سخت ناراض

21 جولائی 2009

امریکہ کے ساتھ پیر کے روز ہونے والے معاہدے پر بھارت میں اپوزیشن نے سخت اعتراض کرتے ہوئے اسے ملکی خودمختاری کے ساتھ سمجھوتہ قرار دیا۔

https://p.dw.com/p/IubP
بھارتی پارلیمان کی عمارتتصویر: Picture-Alliance / Photoshot

اپوزیشن کا کہنا ہے کہ اس سے حساس دفاعی تنصیبات میں امریکہ کی مداخلت کا خطرہ پیدا ہوگیا ہے لہذا حکومت کو اس معاہدے کی کسی بھی صورت میں توثیق نہیں کرنی چاہئے۔

بھارتی وزیر خارجہ ایس ایم کرشنانے امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن کے دورہ بھارت کے دوران ان معاہدوں پر دستخط کئے تھے۔ دائیں اور بائیں دونوں ہی بازو سے تعلق رکھنے والی اپوزیشن پارٹیوں نے منگل کے روز اس معاہدے پر پارلیمان کے دونوں ایوانوں میں زبردست ہنگامہ کیا۔ اپوزیشن نے حکومت پر ملک کی خودمختاری کو امریکہ کے ہاتھوں گروی رکھنے کاالزام لگایا۔ انہوں نے کہاکہ کوئی یہ تصور بھی نہیں کرسکتا ہے کہ امریکی ماہرین بھارت کی سیکیورٹی تنصیبات کا معائنہ کریں۔ اپوزیشن کاکہنا ہے کہ End User Monitoring Agreement کرکے دراصل حکومت نے ملک کی سلامتی اور دفاعی تنصیبات کے راز امریکہ کے حوالے کردئے ہیں حالانکہ وزیر خارجہ ایس ایم کرشنا نے اپوزیشن کی غلط فہمیوں کو دور کرنے کی کوشش کی لیکن اپوزیشن ان کے جواب سے مطمئن نہیں ہوئی اور واک آوٹ کرگئی۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ بھارت کو جس طرح کی جدید ترین ٹیکنالوجی کی ضرورت ہے اس کے لئے امریکہ کے ساتھ یہ معاہدہ ضروری تھا۔ انہوں نے دلیل دی کہ خواہ اس طرح کا معاہدہ امریکہ یا روس سے کیا جائے ہر ملک سمجھوتہ کرنے سے پہلے اپنے ملک کے داخلی قوانین کو مدنظر رکھتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت کے پاس اس معاہدے کے علاوہ کوئی دوسرا چارہ نہیں تھا کیوں کہ معاہدہ نہ کرنے کی صورت میں ہماری فورسز کو پرانے ہتھیاروں پر انحصار کرنا پڑے گا۔ انہوں نے تاہم یقین دلایا کہ بھارت کی خودمختاری، سالمیت اور مفادات کا سودا کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کی نیت پر شک کرنا مناسب نہیں ہے اور یہ معاہدہ ملک کی سلامتی اور توانائی کی ضروریات کے لئے ضروری ہے اور ملک کے مفاد میں ہے۔

تاہم اپوزیشن ایس ایم کرشنا کی دلیل سے مطمئن نہیں ہوئی۔ راشٹریہ جنتا دل کے صدر اور ریلوے کے سابق وزیر لالوپرساد یادو نے کہا کہ امریکہ کے ساتھ ہوئے اس معاہدے نے پورے ملک کوتشویش میں مبتلا کردیا ہے۔ انہوں نے کہا:’’یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے کہ امریکی حکام یہاں آکر ہماری تنصیبات کا معائنہ کریں، آخر ہمار ی عزت اورہمارا وقار کہاں ہے؟‘‘

جنتا دل یونائٹیڈ کے صدر اور سابق مرکزی وزیر شرد یادو نے کہا :’’پہلے پاکستان اور اب امریکہ کے ساتھ جو معاہدہ ہوا ہے اس سے سب کی تشویش بڑھتی جارہی ہے، بھارت اتنا بڑا ملک ہے لیکن ان معاہدوں سے محسوس ہوتا ہے بھارت دوسروں کے سامنے جھکتا جارہا ہے اورسب کچھ امریکہ کے اشارے پر ہورہا ہے‘‘۔

سابق وزیر خارجہ اور بی جے پی کے رہنما یشونت سنہا نے کہا کہ حکومت کو اس معاہدے کی توثیق کرنے سے پہلے ایوان کو اعتماد میں لینا چاہئے۔ انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ امریکہ کے ساتھ ہوئے معاہدے کے متن کو پارلیمان کے ایوان میں رکھا جائے تاکہ اراکین اس کے مضمرات کا جائزہ لے سکیں اور اگر یہ محسوس ہو کہ یہ بھارت کے مفاد کے خلاف ہے تو حکومت کو اس کی توثیق نہیں کرنی چاہئے اور اسے مسترد کردینا چاہئے۔

سابق وزیر دفاع اور سماج وادی پارٹی کے رہنما ملائم سنگھ یادو نے دفاعی معاہدوں پر ہی سوال کھڑا کردیا۔ انہوں نے سوال کیا :’’آخر جب بھارت ایک سپر پاور بن رہا ہے تو ہمیں دوسروں کی طرف دیکھنے کی کیا مجبوری ہے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ دراصل بھارت میں سائنس دانوں اور تکنیکی ماہرین کی خاطر خواہ عزت نہیں کی جاتی ہے۔ اس دوران سابق نائب وزیر اعظم اور لوک سبھا میں اپوزیشن لیڈر لال کرشن اڈوانی نے اپنا یہ مطالبہ دہرایا کہ کسی بھی بین الاقوامی معاہدہ سے قبل پارلیمان کی دو تہائی اکثریت سے اسے منظور کرایا جائے۔

دریں اثناء سرکاری حکام کا کہنا ہے کہ بی جے پی اور دوسری پارٹیا ں اس معاملے پر خواہ مخواہ شور مچار ہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ 2002 میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی قیادت والی قومی جمہوری محاذ حکومت کے دوران امریکہ کے ساتھ 146 ملین ڈالر کا جو دفاعی معاہدہ ہوا تھا اس میں بھی اسی طرح کی شق شامل ہے۔

رپورٹ افتخار گیلانی، نئی دہلی

ادارت عاطف توقیر