بی جے پی کو ایک سال میں 25 ارب روپے آمدنی کیسے ہوئی؟
11 اگست 2021بھارت کے الیکشن کمیشن کی طرف سے جاری کردہ رپورٹ کے مطابق مالی سال 2019-20 کے دوران فروخت ہونے والے 33 ارب 55 کروڑ روپے کے الیکٹورل بانڈز کا تقریباً تین چوتھائی یا 76 فیصد حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی کو ملا۔ اپوزیشن جماعت کانگریس کے حصے میں صرف نو فیصد آئے۔
الیکٹورل بانڈز کیا ہے؟
الیکٹورل بانڈز کرنسی نوٹ کی طرح ہی سیاسی جماعتوں کو چندہ دینے کے لیے ایک مالی قانونی دستاویز ہے جسے کوئی بھی بھارتی شہری یا بھارت میں رجسٹرڈ کمپنی اسٹیٹ بینک آف انڈیا کی مخصوص شاخوں سے خرید سکتی ہے۔
کوئی شہری یا کارپوریٹ ادارہ اس بانڈ کو اپنی پسند کے مطابق کسی اہل سیاسی جماعت کو عطیہ کرسکتا ہے۔
گو کہ بانڈز خریدنے والے کو بینک کو اپنے بارے میں تفصیلات فراہم کرنی پڑتی ہیں جسے کے وائی سی (Know your Customer) کہا جاتا ہے تاہم چندہ دینے والے فرد یا کمپنی کا نام صیغہ راز میں رکھا جاتا ہے، جس سے ووٹروں کو یہ کبھی پتہ نہیں چل پاتا ہے کہ کس شخص، کمپنی یا تنظیم نے کس پارٹی کو کتنا چندہ دیا۔
ایک اور دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ یہ الیکٹورل بانڈز صرف ان سیاسی جماعتوں کو ہی دیے جا سکتے ہیں جنہوں نے سابقہ انتخابات میں مجموعی ووٹوں کا کم از کم ایک فیصد حاصل کیا ہو۔
کس پارٹی کو الیکٹورل بانڈز سے کتنا چندہ ملا؟
مذکورہ مالی کے دوران فروخت ہونے والے 33 ارب 55 کروڑ روپے میں سے بی جے پی کو 25 ارب 55 کروڑ روپے ملے جو کہ اس سے ایک برس قبل کے مقابلے میں 75 فیصد زیادہ ہے۔ سال 2018-19 میں بی جے پی کو 1450 کروڑ روپے ملے تھے۔
کانگریس کی جھولی میں صرف تین ارب 18 کروڑ روپے آئے جو اس سے پچھلے سال کے مقابلے میں 17 فیصد کم ہے جب اس نے الیکٹورل بانڈز کے ذریعہ تین ارب 87 کروڑ بھارتی روپے حاصل کیے تھے۔
بھارت: سیاست کو جرائم سے پاک کرنے کی سمت ایک اہم قدم
مغربی بنگال میں حکمراں ممتا بنرجی کی ترنمول کانگریس کو تقریباً ایک ارب، نیشنلسٹ کانگریس پارٹی کو 29.25 کروڑ، شیو سینا کو 41 کروڑ، ڈی ایم کے کو 45 کروڑ، لالو یادو کی راشٹریہ جنتا دل کو ڈھائی کروڑ اور دہلی کی حکمراں عام آدمی پارٹی کو اٹھارہ کروڑ بھارتی روپے الیکٹورل بانڈز کے ذریعہ بطور چندہ حاصل ہوئے۔
'بدعنوانی کو قانونی جواز‘ فراہم کرنے کا ذریعہ
مودی حکومت نے ملک کی سیاسی جماعتوں میں مالی بدعنوانیوں کو ختم کرنے کا حوالہ دیتے ہوئے سن 2018 میں الیکٹورل بانڈز شروع کیے تھے۔
اس وقت اپوزیشن کانگریس پارٹی نے اسے 'بدعنوانی کو قانونی جواز‘ فراہم کرنے کی کوشش قرار دیا تھا لیکن مودی حکومت کی دلیل تھی کہ اس سے شفافیت میں اضافہ ہوگا کیونکہ اس سے یہ معلوم ہوجائے گا کہ کس سیاسی جماعت کو کتنے پیسے چندے کے طور پر ملے۔
’بھارتی الیکشن کمیشن پر قتل کا مقدمہ چلایا جائے‘
الیکٹورل بانڈز شروع کیے جانے سے قبل سیاسی جماعتوں کو بیس ہزار روپے سے زیادہ ملنے والے چندے کے بارے میں یہ بتانا پڑتا تھا کہ یہ رقم کس نے دی ہے۔ سیاست میں شفافیت کے لیے سرگرم تنظیموں اور کارکنوں کا کہنا ہے کہ اس نئی تبدیلی نے شفافیت اور شہریوں کے 'جاننے کے حق‘ کو ختم کر دیا ہے اور سیاسی طبقہ کو جوابدہ بنانا اب مزید مشکل ہو گیا ہے۔
ملک میں سیاست میں اصلاحات کے لیے سرگرم غیر حکومتی تنظیم ایسوسی ایشن فار ڈیموکریٹک ریفارمز نے بھی الیکٹورل بانڈز کو'قانونی طورپر تسلیم شدہ بدعنوانی‘ قرار دیتے ہوئے اس پر پابندی لگانے کے لیے سپریم کورٹ میں ایک کیس دائر کیا تھا۔ تاہم عدالت نے اس پر روک لگانے سے انکار کرتے ہوئے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ اسے الیکٹورل بانڈر کی فروخت کو روکنے کی کوئی وجہ دکھائی نہیں دیتی۔
بی جے پی امیر ترین سیاسی جماعت
الیکٹورل بانڈز کے نفاذ کے بعد سے گزشتہ تین برسوں کے دوران بی جے پی کی آمدنی میں سب سے زیادہ اضافہ ہوا ہے۔
حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی نے الیکشن کمیشن کو پیش کردہ رواں مالی سال کی آڈٹ رپورٹ میں اپنا اوپننگ بیلنس 35 ارب ایک کروڑ روپے ظاہر کیا ہے جس میں نقدی اور بینک میں جمع رقوم شامل ہیں۔ گزشتہ مالی سال میں بی جے پی کے پاس مجموعی طور پر 19 ارب چار کروڑ بھارتی روپے تھے۔
بی جے پی کی طرف سے پیش کردہ رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس اس نے 73 کروڑ روپے مالیت کی زمینیں اور 59 کروڑ روپے کی مالیت کی عمارتیں خریدیں۔
'ہندوستان میں رہنا ہوگا تو جے شری رام ہی کہنا ہو گا‘
بھارت میں حکمراں جماعت کا سب سے دولت مند ہونا کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے۔ بیشتر تاجر، ادارے اور کمپنیاں اپنے مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے اپوزیشن جماعتوں کے مقابلے حکمراں جماعت کو زیادہ سے زیادہ چندہ دیتی ہیں۔
سیاسی تجزیہ کاروں کا تاہم کہنا ہے کہ بی جے پی مالی اعانت حاصل کرنے کے لیے ہر ممکنہ ذرائع کا استعمال کر رہی ہے تاکہ انتخابی مہم کے دوران اور بعد میں منتخب نمائندوں کو خریدنے کے لیے اس رقم کا استعمال کیا جا سکے۔
بھارت میں سیاسی جماعتیں الیکٹورل بانڈز کے ذریعے حاصل ہونے والے چندے کا حساب تو الیکشن کمیشن کو 'مجبوراً‘ دے دیتی ہیں لیکن کہا جاتا ہے کہ اس سے کئی گنا زیادہ نقدی کی شکل میں ملنے والے چندے کا کوئی حساب کتاب نہیں رکھا جاتا۔