بھارت: تواہم پرست تعلیم یافتہ والدین نے بیٹیوں کو قتل کردیا
29 جنوری 2021تواہم پرستی کے اس ہولناک واقعے پر پورا بھارت ششدر ہے۔ لوگ یہ سوال کررہے ہیں کہ اعلی سائنسی تعلیم حاصل کرنے کے باوجود کیا کوئی شخص اس قدر تواہم پرست ہوسکتا ہے؟
جنوبی بھارت کے صوبے آنداھرا پردیش کے ضلعے چتور میں ایک اعلی تعلیم یافتہ جوڑے نے اپنی دو جوان بیٹیوں کواس 'یقین‘ کے ساتھ مار ڈالا کہ اگلے روز آفتا ب طلوع ہوتے ہی وہ زندہ ہوجائیں گی کیوں کہ 'کل یگ‘ ختم ہورہا ہے اور 'ست یگ‘ کا آغاز ہونے والا ہے۔ پولیس کے بروقت پہنچ جانے سے خودکشی کرنے کی دونوں کی کوشش بہر حال ناکام ہوگئی۔
مندروں کے شہر تروپتی میں رہنے والے وی پرشوتم نائیڈو نے کیمسٹری میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی ہے اور ایک سرکاری کالج میں پرنسپل ہیں جبکہ ان کی بیوی پدمجا ریاضی میں پوسٹ گریجویٹ کر کے بھارت کے معروف تعلیمی ادارے انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹکنالوجی سے گولڈ میڈل بھی حاصل کر چُکی ہیں اور وہ ایک کوچنگ انسٹی ٹیوٹ چلاتی ہیں۔ ان کی دو بیٹیاں تھیں۔ بڑی بیٹی، کی عمر27 سال اور نام الیکھیا تھا جو پوسٹ گریجویشن کررہی تھی اورچھوٹی بیٹی 22 سالہ سائی دیویا بزنس مینجمنٹ کی تعلیم حاصل کررہی تھی۔
پولیس کا کہنا ہے کہ پروشوتم اور پدمجا دونوں ہی تواہم پرست ہیں۔ اتوار کی رات انہوں نے چھوٹی بیٹی کو ترشول سے مار ڈالا۔ اس کے بعد بڑی بیٹی کے منہ پر تانبے کا برتن رکھا اوراس پر ہتھوڑے سے وار کرکے اس کو بھی مار دیا۔ پڑوسیوں نے شور سن کر پولیس کو مطلع کیا۔ جب پولیس نے ان دونوں سے بیٹیوں کو قتل کرنے کی وجہ دریافت کی تو انہوں نے بڑے اطمینان سے کہا کہ دونوں بیٹیاں سورج طلوع ہونے کے ساتھ ہی زندہ ہوجائیں گی۔ کیونکہ 'کل یگ‘ ختم ہونے اور 'ست یگ‘ شروع ہونے والا ہے۔ ان دونوں کے چہروں پر ذراسا بھی تاسف نہیں تھا۔
ہندو عقیدے کے مطابق موجودہ دور 'کل یگ‘ کا ہے جس میں ہر طرف برائی اور بدعنوانی کا دارو دورہ ہے جب کہ 'ست یگ‘ میں ہر طرف نیکی اور ایمانداری کا بول بالا ہوگا۔
ماہرین نفسیات کہتے ہیں کہ بھارت میں بعض والدین بالعموم بچوں کو بہت کم عمر میں ہی تواہم پرست بنا دیتے ہیں جس سے وہ زندگی بھر نکل نہیں پاتے ہیں۔ چتور میں جو ہوا،اس طرح کے جرائم صرف تواہم پرستی کا نتیجہ نہیں ہیں بلکہ بعض اوقات عقیدہ بھی اس کے پس پشت کارفرما ہوتا ہے۔
ماہر نفسیات ڈاکٹر ڈائنا مونٹیریو کہتی ہیں ''عقیدہ کسی شخص کے لیے بہت زبردست محرک ثابت ہوتا ہے۔ ہم ہمیشہ کچھ بہتر کے تئیں پرامید رہتے ہیں اور اگر کم عمری میں ہی تواہم پرستی اور عقیدے کو دماغ میں بٹھا دیا جائے تو فکر میں وسعت پیدا کرنا مشکل ہوجاتا ہے اور ایسے لوگ کچھ سوچ سمجھ کر کام کرنے کے قابل نہیں رہ جاتے۔"
ڈاکٹر مونٹیریو کہتی ہیں 'واہمے بھی ایسے حالات میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ چتور کے معاملے میں مذکورہ جوڑا پولیس سے مسلسل اصرار کررہا تھا کہ لاشوں کو گھر پر ہی رہنے دیا جائے کیوں کہ وہ زندہ ہوجائیں گی۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ انہیں اپنے عقیدے پر کتنا زبردست یقین تھا۔"
ایک اور ماہر نفسیات ڈاکٹر پرنیما ناگ راج کا کہنا تھا کہ تواہم پرستی خوف اور بے یقینی کی وجہ سے پروان چڑھتی ہے۔ ”ایسے لوگ کسی طرح کی منطق سننا بھی پسند نہیں کرتے۔ بھارت میں نام نہاد'بابا‘ بھی لوگوں کے اندر خوف کا احساس پیدا کرکے اپنا الّو سیدھا کرتے ہیں۔" ڈاکٹر ناگ راج کا کہنا تھا،” چتور کے کیس میں جوڑے نے 'زیادہ بہتری‘ کے لیے اپنی بیٹیوں کو قربان کردیا۔ لیکن اس کا سب سے افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ وہ یہ ماننے کے لیے کبھی تیار نہیں ہوں گے کہ انہوں نے جرم کیا ہے بلکہ وہ پورے یقین کے ساتھ اپنی عمل کو درست قرار دیں گے۔"
چتور ضلعے کے پولیس سپریٹنڈنٹ کے مطابق دونوں ملزمین کو عدالتی تحویل میں لینے کے بعد ایک ہسپتال میں منتقل کردیا گیا ہے جہاں ڈاکٹر ان کا معائنہ کررہے ہیں اور اس کی رپورٹ عدالت میں پیش کی جائے گی۔ جس کے بعد ان کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔
جاوید اختر ) نئی دہلی( ک م