بھارت توقعات پر پورا اترنے کی کوشش کرے گا، کرشنا
13 اکتوبر 2010اقوام متحدہ کے رکن ممالک کے 98 فیصد سے زیادہ کی حمایت کے ساتھ سلامتی کونسل کا رکن منتخب ہونے کے بعد بھارت نے اپنی ترجیحات بیان کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنی روایتی بصیرت اور خیرسگالی کی خواہش کو بروئے کار لاتے ہوئے سلامتی کونسل کے فیصلوں کو تعمیری اور اعتدال پسندانہ بنانے کے لئے کام کرے گا۔
بھارتی وزیر خارجہ ایس ایم کرشنا نے کہا : ”ہم ایک ایسے پڑوسی کے ساتھ رہ رہے ہیں، جس کے حالات کشیدہ ہیں۔ ہماری فوری ترجیحات یہ ہوں گی کہ افغانستان ، مشرق وسطیٰ اور افریقہ میں امن و استحکام ہو۔ ہم انسداد دہشت گردی، بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں تک non-state actors کی رسائی کو روکنے اور اقوام متحدہ کی قیام امن کی کوششوں کو تقویت دینے کے لئے کام کریں گے“۔ مسٹر کرشنا نے کہا کہ بھارت اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ڈھانچہ جاتی اصلاحات کے لئے اپنے ہم خیال ملکوں اور گروپوں کے ساتھ مل کراپنی کوششیں جاری رکھے گا۔
بھارتی وزیر خارجہ نے پاکستان کے حوالے سے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے کہا : ”ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان کے ساتھ ہمارے تعلقات خوشگوار رہیں۔ ہم نے ایک اچھے پڑوسی کی حیثیت سے پاکستان کے ساتھ تعلقات برقرار رکھنے کی ہر ممکن کوشش کی ہے۔“ ایس ایم کرشنا نے کہا کہ وہ اپنے پاکستانی ہم منصب شاہ محمود قریشی کے بھارت آنے کے منتطر ہیں اور امید کرتے ہیں کہ ان کے ساتھ’’ بات چیت سے باہمی تعاون کا دائرہ وسیع ہوگا اور اختلافات کی بنیادیں کم ہوں گی۔“
خیال رہے کہ سلامتی کونسل کی رکنیت کے حصول میں اس بار پاکستان نے غیرمتوقع طور پربھارت کی حمایت کی۔ 1950 کے بعد سے حالانکہ بھارت چھ مرتبہ سلامتی کونسل کا غیر مستقل رکن رہ چکا ہے لیکن ماضی میں پاکستان نے ہمیشہ بھارت کے خلاف ووٹ دیا تھا۔
ذرائع کے مطابق بھارت نے اس مرتبہ اپنی جیت کو یقینی بنانے کے لئے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ حکومت گزشتہ دو برسوں سے اس کے لئے ایسی زبردست مہم چلارہی تھی جس کی نظیر بھارت کے سفارتی تاریخ میں نہیں ملتی۔
ذرائع کے مطابق بھارت نے چھوٹے چھوٹے ملکوں کی حمایت کو بھی یقینی بنانے کے لئے وہاں اپنے اعلیٰ افسران بھیجے۔ خود وزیر خارجہ ایس ایم کرشنانے پچھلے ماہ اقوام متحدہ کے جنرل اسمبلی کے اجلاس کے دوران نیویارک میں دس روز تک ٹھہر کر متعدد ملکوں کے سفیروں سے ملاقات کی تھی اور افسران کو یہ یقینی بنانے کی ہدایات دیں کہ بھارت کو 1996 کی صورت حال سے دوچار نہ ہونا پڑے جب متعدد ترقی یافتہ ملکوں کی طرف سے یقین دہانی کے باوجود بھارت کو جاپان کے ہاتھوں شکست سے دوچار ہونا پڑا تھا۔
تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اقوام متحدہ کے 192 میں سے 187 اراکین کی حمایت اپنے آپ میں کافی اہم ہے اور یہ سلامتی کونسل کی مستقل رکنیت کے راستے میں بھارت کے لئے ایک اہم پڑاؤ ثابت ہوسکتا ہے۔ چونکہ جرمنی، برازیل اور جنوبی افریقہ بھی اس بار غیر مستقل رکنیت کے لئے منتخب ہوئے ہیں، اس لئے اس بات کا قوی امکان ہے کہ بھارت ان ممالک کے علاوہ BRIC اورIBSA جیسے گروپ کے اراکین،جو سلامتی کونسل کے غیرمسقل اراکین میں شامل ہیں، کے ساتھ مل کرسلامتی کونسل میں اصلاحات کی مہم کو زیادہ زور و شور سے اٹھا سکتا ہے۔
رپورٹ : افتخار گیلانی، نئی دہلی
ا دارت: عصمت جبیں