بھارت: خواتین سیاست دانوں کوٹوئٹر پر گالیاں اور دھمکیاں
23 جنوری 2020حقوق انسانی کی بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ بھارت میں ہونے والے گزشتہ عام انتخابات کے دوران خواتین سیاست دانوں کو ٹوئٹر پر ہر روزاوسطاً ایک سو اہانت آمیز ٹوئیٹس بھیجے گئے۔ ہر سات میں سے ایک ٹوئیٹ اہانت آمیز تھا جن میں انہیں گالیاں یا دھمکیاں دی گئی تھیں۔یہ ٹوئیٹس گزشتہ برس مارچ اور مئی کے درمیان 95 بھارتی خواتین سیاست دانوں کوبھیجے گئے تھے۔
ایمنسٹی نے سات ملین ٹوئیٹس میں سے بالترتیب ایک لاکھ 14ہزار 716ٹوئیٹس کا تجزیہ کرنے کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا ہے۔ جن خواتین سیاست دانوں کو یہ ٹوئیٹس بھیجے گئے تھے ان میں لوک سبھا اور راجیہ سبھا اور اسمبلیوں کی اراکین نیز سیاسی پارٹیوں کی عہدیدار، ترجمان اور موجودہ اور سابق وزرائے اعلٰی شامل تھیں۔
رپورٹ کے مطابق تحقیق میں یہ بات سامنے آئی کہ مجموعی طور پر 13.8فیصد ٹوئیٹس میں گالی گلوچ کا استعمال کیا گیا۔ جب کہ مسلم خواتین سیاست دانوں کی تقریباً 95 فیصد ٹرولنگ ان کے مذہب کی وجہ سے کی گئی۔ رپورٹ میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ بیشتر ان سیاست دانوں کو نشانے پر لیا گیا جن کا تعلق حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی سے نہیں تھا۔ رپورٹ کے مطابق بی جے پی سے تعلق رکھنے والی خواتین سیاست دانوں کے مقابلے میں دیگر جماعتوں سے تعلق رکھنے والی خواتین سیاست دانوں کو56.7 فیصد زیادہ گالیاں دی گئیں۔
حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی کی رکن پارلیمان لاکٹ چٹرجی نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ کسی خاتون سیاست دان کو صرف اس بنیاد پرکہ وہ عورت ہے آن لائن نشانہ بنانا قطعی درست نہیں ہے۔ خواہ ایسا کرنے والے کسی بھی سیاسی جماعت سے تعلق رکھنے والے افراد ہوں۔ ان کا کہنا تھا، ”آپ سیاسی نظریات پر حملہ کیجیے، اس میں کوئی قباحت نہیں ہے لیکن کسی کی ذاتیات پر حملہ نہیں کیا جانا چاہیے کیوں کہ یہ خواتین کے وقار کے خلاف ہے۔"
ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ دنیا کے دیگر ملکوں کے مقابلے میں بھارت میں خواتین سیاست دانوں کو زیادہ توہین آمیز رویے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ برطانیہ کے مقابلے میں 13.8فیصد اور امریکا کے مقابلے میں 7.1 فیصد زیادہ ہے۔
بھارتی سیاست دانوں کی ٹرولنگ کرنے والے انہیں فحش گالیاں بھی دیتے ہیں۔ ان کے لیے 'چڑیل‘، 'طوائف‘ اور 'فاحشہ‘ جیسے الفاظ کا بھی استعمال کیا جاتا ہے اور انہیں پاکستان بھیجنے کی بھی مسلسل دھمکیاں دی جاتی ہیں۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ انہوں نے مذکورہ نتائج کے بارے میں ٹوئیٹر کی انتظامیہ کو نومبر میں ہی مطلع کیا تھا اور کافی طویل خط و کتابت کے بعد ٹوئیٹر نے ایمنسٹی کو بتایا کہ انہوں نے اپنی ٹیکنالوجی کو بہتر بنایا ہے اور متعدد اکاؤنٹس کو معطل یا بلاک کردیے ہیں۔
ایمنسٹی کا خیال ہے کہ 'ٹوئٹر خواتین کے آن لائن حقوق کا احترام کرنے کی اپنی ذمہ داری ادا کرنے میں ناکام ثابت ہوا ہے۔‘ اس نے ٹوئیٹر کو بھارت کی علاقائی زبانوں پر مزید توجہ دینے کا مشورہ بھی دیا کیوں کہ علاقائی زبانوں میں خواتین کے خلاف آن لائن تشدد کے واقعات زیادہ ہو رہے ہیں۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ ٹوئیٹر کو خواتین کے خلاف تشدد پر قابو پانے کی اپنی کوششوں کو زیادہ بہتر بنانے اور مواد کو شائع کرنے کے عمل کو زیادہ شفاف بنانے کی ضرورت ہے۔