بھارت: سینکڑوں خوف زدہ مسلمان اپنا گاؤں چھوڑ گئے
11 اکتوبر 2017بھارتی پولیس کے مطابق پاکستان اور بھارت کی سرحد کے قریب ڈانٹال نامی گاؤں میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے مابین ستائیس ستمبر کو تنازعہ اس وقت شروع ہوا، جب ایک پنڈت نے لوک گلوکار احمد خان پر یہ الزام عائد کیا کہ اس نے ایک ہندو دیوی کی شان میں پڑھی جانے والی ایک نظم میں غلطیاں کی تھیں۔
پینتالیس سالہ احمد خان کا تعلق راجستھان کے لانگا منگن یار قبیلے سے تھا۔ یہ قبیلہ نسل در نسل ہندوؤں کے مذہبی تہواروں کے موقع پر مندروں میں مختلف بھجن گانے کا کام کرتا آیا ہے۔ ایک مقامی پنڈت نے احمد خان کو بھجن میں تبدیلی کرنے کے لیے کہا، جس کے بعد دو طرفہ بحث کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔
بیف لے جانے کا شبہ: بھارتی مسلمان قتل، بی جے پی رہنما گرفتار
پولیس کے مطابق اس کے بعد پنڈت رامیش سُتھر اور اس کے دوستوں نے احمد کے آلات موسیقی توڑ دیے اور اسے قتل بھی کر دیا تھا۔ پولیس کے سینئر تفتیشی افسر گورو یادیو کا نیوز ایجنسی روئٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’قتل کی خبر پھیلنے کے بعد انہی ہندوؤں اور مسلمانوں کے مابین لڑائی کا سلسلہ شروع ہو گیا، جو کئی نسلوں سے یہاں مل جل کر رہ رہے تھے۔‘‘
یو پی: ادتیاناتھ حکومت، ہندتوا اور سیکولر بھارت کے خلاف جنگ
اس پولیس افسر نے یہ تو نہیں بتایا کہ احمد خان کو کس نے قتل کیا تھا تاہم یہ تصدیق کر دی گئی کہ اس مقامی پنڈت کو گرفتار کر لیا گیا ہے جبکہ اس کے دوست فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ اس ہندو پنڈت کے خاندان کے دو افراد کا کہنا تھا کہ وہ ابھی تک اس حوالے سے صدمے میں ہیں۔
حکومت نے اس علاقے میں پیراملٹری دستے تعینات کر دیے ہیں لیکن گاؤں سے رخصت ہوجانے والے مسلمانوں نے خوف کے باعث واپس اپنے گھروں کو لوٹنے سے انکار کر دیا ہے۔ مقتول لوک گلوکار کے ایک رشتے دار راکھا خان کا کہنا تھا، ’’ایک چھوٹی سے غلطی پر ہندوؤں نے میرے بھائی کو قتل کر دیا۔ ہم اب اس گاؤں میں کبھی بھی دوبارہ مل کر نہیں رہ سکتے۔‘‘
بھارت میں ہندو قوم پرست رہنما نریندر مودی کی حکومت آنے کے بعد سے مسلمان اقلیت پر ہونے والے حملوں میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ کئی ریاستوں میں گائے کے گوشت پر پابندی بھی عائد کر جا چکی ہے جبکہ انتہا پسند ہندوؤں کے حملوں میں متعدد مسلمان ہلاک بھی ہو چکے ہیں۔