بھارت: سینکڑوں زبانوں کے خاتمے کا خطرہ
29 دسمبر 2009سن 2001ء کی مردم شماری کے مطابق بھارت میں ایک اعشاریہ سولہ بلین افراد آباد ہیں، جو مختلف لہجوں والی چھ ہزار پانچ سو زبانیں بولتے اور سمجھتے ہیں۔
مغربی بھارت میں قائم ادیواسی اکیڈمی میں ابھی بھی ایسی زبانیں گونجتی ہیں، جن کی اہمیت شائد جلد ہی بے ہنگم شور سے زیادہ نہ رہے۔ کوکنا، پانچ محالی اور راٹھوری وہ تین زبانیں ہیں جو ابھی تک اس اکیڈمی میں پڑھائی جاتی ہیں۔ ادیواسی اکیڈمی کا آغازانیس سو چھیانوے میں ہوا تھا۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ معدوم ہوتی بھارتی زبانوں کے ورثے کو آئندہ نسلوں تک منتقل کیا جا سکے۔
اس اکیڈمی کے 29 سالہ ٹیچرجتیندر واساوا کا کہنا ہے کہ اگر نئی نسل نے یہ زبانیں نہ سیکھیں تو یہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بھلا دی جائیں گی۔ یہ زبانیں بولنے والے افراد آئندہ 30 برسوں میں بوڑھے ہو جائیں گے، جس سے یہ زبانیں بھی صفحہ ہستی سے مٹ جائیں گی۔
جتیندراپنی مادری زبان وساوی کے ساتھ ساتھ مزید دس زبانیں بول سکتے ہیں۔ وساوی زبان تقریبا 80 ہزار افراد بولتے ہیں۔ یہ افراد گجرات اور مغربی ریاست مہاراشٹر میں آباد ہیں۔
بھارت کی وہ زبانیں جو معدوم ہونے کے خطرے سے دوچار ہیں زیادہ تر ہمالیہ، شمال مشرقی علاقوں، چین اور بھوٹان کی سرحدوں پر واقع دوردرازعلاقوں میں بولی جاتی ہیں۔
راٹھوری زبان گجرات اور ریاست مدھیہ پردیش میں بسنے والے ایک لاکھ اٹھارہ ہزار افراد بولتے ہیں۔ بھارت کی کئی دوسری زبانوں کی طرح راٹھوری زبان بھی کسی کتابی شکل میں موجود نہیں تھی۔ اس اکیڈمی کی مدد سے اس زبان کو کتابی شکل دی گئی ہے، تا کہ یہ زبان سکولوں میں پڑھائی جا سکے۔
نئی دہلی میں قائم جواہرلال نہرو یونیورسٹی کے پروفیسر انویتا ابھی کا کہنا ہے کہ بھارتی جزیرے انڈومان اور نیکوبار میں بسنے والے ہر50 افراد میں سے صرف پانچ افراد مقامی عظیم انڈومانی زبان بولتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہاں کے باشندے اپنی نسلوں کو یہ زبان منتقل نہیں کر رہے، جس کی وجہ سے اس زبان کا صفحہ ہستی سے مٹ جانے کا خدشہ ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ یونیسکو کی جانب سے خاتمے کے خطرے سے دوچار زبانوں کے بارے میں تیار کردہ فہرست تفصیلی نہیں ہے۔ ان کے مطابق درجنوں کئی دوسری زبانیں بھی ہیں، جن کو اس لسٹ میں شامل نہیں کیا گیا۔
یونیسکو اٹلاس کے ایڈیٹر ایدھے نارائن سنگھ کا کہنا ہے کہ بڑی زبانیں اس وجہ سے زندہ رہتی ہیں کہ لوگوں کی شناخت ان زبانوں سے جڑی ہوئی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اردو اور پنجابی زبان کو مذہبی اور سیاسی سہارا حاصل ہے، جس وجہ سے ان زبانوں کے زندہ رہنے کے امکانات زیادہ ہیں۔
یہ زبانیں مسلمانوں اور سکھوں کے ساتھ جڑی ہوئی ہیں۔ بھارت کی 22 دفتری زبانیں ہیں، جن میں انگریزی بھی شامل ہے۔
دنیا میں بقا کے خطرے سے دوچار زبانوں میں پاکستان کی ستائیس زبانیں بھی شامل ہیں، جن میں براہوی، بلتی، مائیا(مائين)، پھلور، کلاشہ، خووار بہادرواہی، چلیسو، دامیلی، ڈوماکی، گاورو، جاد، کاٹی، خووار، کنڈل شاہی اور مری، پھلورا، سوی، سپٹی، طور والی، اوشوجو، واکھی، یدیغا اور زنگسکاری شامل ہیں۔
رپورٹ : امتیاز احمد
ادارت: امجد علی