بھارتی عدالت کی طرف سے حجاب پر پابندی کا فیصلہ برقرار
15 مارچ 2022بھارت کی جنوبی ریاست کرناٹک کی ہائی کورٹ کی ایک بنچ نے 15 مارچ منگل کے روز کالج کی مسلم طالبات کی ان متعدد درخواستوں کو خارج کر دیا جس میں کلاس رومز کے اندر یونیفارم کے ساتھ ساتھ حجاب یا سر پر اسکارف پہننے کے حق کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
ریاست کے ضلع اڈوپی میں حجاب کا تنازعہ دسمبر میں اس وقت شروع ہوا تھا جب اسکول نے گیارہویں اور بارہویں جماعتوں کی بعض طالبات کو اسکارف پہننے کے سبب کلاس روم میں داخل ہونے سے منع کر دیا تھا۔ پہلے طالبات نے اس کے خلاف احتجاج کیا لیکن پھر جب انتظامیہ نے بھی ان کی حمایت کرنے کی بجائے اسکول کی حمایت کی تو اس معاملے کو عدالت میں چیلنج کیا گيا تھا۔
عدالت نے کیا کہا؟
اپنا فیصلہ پڑھ کر سناتے ہوئے ریاستی ہائی کورٹ کے چیف جسٹس ریتو راج اوستھی نے کہا، ’’ہمارا خیال ہے کہ اسلامی عقیدے میں مسلم خواتین پر حجاب پہننا کوئی لازمی مذہبی عمل نہیں ہے۔‘‘
اس بنچ میں شامل ایک اور جج جسٹس کرشنا ایس دیکشت کا کہنا تھا، ’’ہماری رائے یہ ہے کہ اسکول کی جانب سے یونیفارم متعین کرنا ایک معقول پابندی ہے جو آئینی طور پر جائز ہے اور اس پر طلبہ کو اعتراض کرنے کا حق نہیں ہے۔‘‘
ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں پانچ فروری کو جاری ہونے والے اس سرکاری حکمنامے کو بھی برقرار رکھا ہے، جس میں کہا گيا تھا کہ جن کالجوں میں یونیفارم کا تعین کر دیا گیا ہے، وہاں حجاب پہننے پر پابندی لگائی جا سکتی ہے۔
ہائی کورٹ کی فل بنچ نے کہا، ’’ہماری رائے یہ ہے کہ حکومت نے پانچ فروری 2022 ء کو جو ایک قانونی حکم نامہ جاری کیا تھا، انہیں ایسا کرنے کا قانونی اختیار حاصل ہے اور اس کو کالعدم قرار دینے کی کوئی وجہ نہیں پائی جاتی ہے۔‘‘
عدالت کا کہنا تھا کہ اس نے تنازعے کا ایک جامع نظریہ لیا اور بعض سوال مرتب کیے ہیں جن کے جوابات ضروری ہیں۔ عدالتی بیان کے مطابق، ’’سوال یہ ہے کہ کیا اسلامی عقیدے کے مطابق آئین کی دفعہ 25 کے تحت حجاب پہننا یا اسکارف لگانا ایک لازمی مذہبی عمل ہے کہ نہیں؟‘‘
عدالت کا مزید کہنا تھا کہ دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا قانونی طور پر اسکول میں ایک یونیفارم کا تعین جائز ہے یا نہیں؟ کیونکہ درخواست گزاروں کے مطابق اس سے آئین کے آرٹیکل 191 اے کے تحت ان کے بنیادی حقوق کی پامالی ہوتی ہے۔
اس کا جواب دیتے ہوئے عدالت نے کہا،’’اسلامی عقیدے میں مسلم خواتین کے لیے حجاب پہننا ایک لازمی مذہبی عمل نہیں ہے‘‘ ، تو پھر حکومت اس پر اپنا فیصلہ کرنے کی مجاز ہے۔ اسکول یونیفارم کا تعین کرنا بھی ایک معقول پابندی ہے جو آئینی طور پر درست ہے اور اس پر طالبات اعتراض نہیں کر سکتیں۔‘‘
عدالت نے طالبات کے اس مطالبے کو بھی مسترد کر دیا، جس میں کہا گيا تھا کہ چونکہ کالج کے حکام نے مسلم لڑکیوں کے حجاب پہن کر اپنے کالجوں میں داخلے پر پابندی لگائی اس لیے ان کے خلاف کارروائی کی جائے۔
مسلمانوں کا رد عمل
بیشتر مسلم تنظیموں، اداروں اور دانشوروں نے عدالت کے اس فیصلے کو مایوس کن قرار دیتے ہوئے اس کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’ہائی کورٹ کا یہ فیصلہ، آئین میں جن بنیادی حقوق کی ضمانت دی گئی ہے اس کی روح کے منافی ہیں۔‘‘
سپریم کورٹ کے ایک سرکردہ وکیل آر ایم شمشاد نے بھی عدالت کے فیصلے میں نقص بتائے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ،’’عدالت کی یہ تشریح کہ اسلامی عقیدے میں جو فرائض ہیں صرف اسی کو تحفظ ملے گا یہ درست نہیں۔ اس کو انسانی بنیادی آزادی کے چشمے سے دیکھنا صحیح نہیں ہے۔‘‘
ڈی ڈبلیو اردو سے بات چيت میں آر ایم شمشاد نے مزید کہا، ’’یہ فیصلہ بنیادی آزادی کے خلاف ہے۔ مذہبی آزادی کے خلاف ہے۔ عدالت کو اس کیس کا جائزہ ان اصولوں پر نہیں لینا چاہیے تھا کہ یہ مذہب میں فرض کا درجہ رکھتا ہے یا نہیں، بلکہ اسے انسان کی بنیادی آزادی کے اصول پر پر کھنا چاہیے تھا۔‘‘