بھارت: لاک ڈاون کے سبب بچوں کے استحصال میں اضافہ
4 اگست 2020بے روزگاری اور اقتصادی بحران کی وجہ سے پریشان حال افراد خود بھی اپنے بچوں سے مزدوری کرانے کے لیے مجبور ہوگئے ہیں۔ نوبیل انعام یافتہ کیلاش ستیارتھی کے چلڈرنس فاونڈیشن کی طرف سے جاری ایک رپورٹ میں یہ باتیں کہی گئی ہیں۔
فاونڈیشن نے لاک ڈاون کے بالخصوص دیہی علاقوں کے بچوں پر پڑنے والے اثرات کا جائزہ لیا ہے۔ اس میں بچوں کی سلامتی، بچوں کے حقوق، بچوں کی بردہ فروشی اور بچوں کی شادی جیسے امور پر کام کرنے والی رضاکار تنظیموں سے بھی بات چیت کی گئی ہے۔
فاونڈیشن نے لاک ڈاون کے دوران مہاجر مزدوروں کی واپسی سے متاثرہ ریاستوں کے پچاس سے زیادہ غیر سرکاری تنظیموں اور تقریباً ڈھائی سو خاندانوں سے بات چیت کی بنیاد پر تیار اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ کورونا وائرس کی وبا کی وجہ سے لاک ڈاون کے دوران کچھ ریاستوں میں لیبر قوانین کے کمزور پڑ جانے کا جائزہ لیا جانا چاہیے اور احتیاطی اقدامات کیے جانے چاہئیں۔ رپورٹ میں دلیل دی گئی ہے کہ لیبر قوانین کے کمزور پڑنے سے بچوں کے سلامتی متاثر ہوگی۔ اس کی وجہ سے بچہ مزدوری کے معاملات میں اضافہ ہوسکتا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کورونا کی وجہ سے پیدا ہونے والے اقتصادی بحران کے سبب21 فیصد خاندان اپنے بچوں سے مزدوری کرانے کے لیے مجبور ہیں۔ کیلاش ستیارتھی فاونڈیشن نے مشورہ دیا ہے کہ اس صورت حال سے بچنے کے لیے اطراف کے گاوں میں نگرانی کا نظام کو مزید بہتر بنانا ضروری ہے۔ اس سے لاک ڈاون سے متاثر بچوں کو بچہ مزدوری کے دلدل میں پھنسنے سے روکا جاسکے گا۔ فاونڈیشن کا کہنا ہے کہ پنچایتوں اور گاوں کی سطح پر سرکاری افسران کو یہ یقینی بنانا ہوگا کہ بچے کام پر جانے کے بجائے اسکول جائیں۔
رپورٹ میں لاک ڈاون کے بعد بچوں کی بردہ فروشی کے معاملات میں اضافہ پر تشویش ظاہر کی گئی ہے۔ 89 فیصد غیر سرکاری تنظیموں کو خدشہ ہے کہ لاک ڈاون ختم ہونے کے بعد بالغوں کے ساتھ بچوں کی اسمگلنگ میں بھی اضافہ ہوسکتا ہے۔ تقریباً76 فیصد تنظیموں کا کہنا ہے کہ لاک ڈاون کے بعد جسم فروشی کی تجارت کے لیے بردہ فروشی تیزی سے بڑھنے کا خدشہ ہے۔ ان میں بچوں کی تعداد زیادہ ہوسکتی ہے۔
غیر سرکاری تنظیموں نے لاک ڈاون کے بعد بچوں کی شادی کے معاملات میں اضافے کا خدشہ بھی ظاہر کیا ہے۔ اس کے مدنظر رپورٹ میں نگرانی کا نظام بہتر بنانے کے ساتھ قانون نافذ کرنے والی تمام ایجنسیوں کو زیادہ چوکنا رہنے کے لیے کہا گیا ہے۔
فاونڈیشن نے اپنی رپورٹ میں متعلقہ ریاستی حکومتوں سے بچہ مزدوری، بندھوا مزدوری اور بردہ فروشی کا شکار ہونے والے بچوں کو اس دلدل سے نکالنے کے بعد ان کو معاوضے کی رقم فوراً ادا کرنے کی سفارش کی ہے۔ اس رقم کی مدد سے استحصال سے نجات حاصل کرنے والے بچوں کو دوبارہ بچہ مزدوری یا جنسی استحصال کے دلدل میں پھنسنے سے بچایا جاسکے گا۔ رپورٹ کے مطابق بے روزگار غریب خاندان پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے بچوں کو جسم فروشی کے کاروبار کے دلدل میں دھکیل رہے ہیں۔
اس رپورٹ کے منظر عام پر آنے کے بعد بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی کئی تنظیموں نے بھی موجودہ صورت حال پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ مغربی بنگال میں حقوق اطفال کمیشن کی سربراہ انینیا چٹرجی کا کہنا تھا”لاک ڈاون نے بالخصوص دیہی معیشت کی کمر توڑ دی ہے۔ لاکھوں کی تعداد میں مہاجر مزدوروں کی واپسی کا سب سے زیادہ اثر بچوں اور خواتین پر پڑ رہا ہے۔ ایسے میں بچہ مزدوری اور جنسی استحصال کے واقعات میں اضافہ ہونا فطری ہے۔ متعلقہ افسران کو اس پہلو پر سنجیدگی سے توجہ دینی چاہیے تاکہ حالات کومزید خراب ہونے سے بچایا جاسکے۔
بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے ایک ادارے کی رکن شیام لتا کہتی ہیں ”دیہی علاقوں میں ہونے والے ایسے بیشتر واقعات کی اطلاع پولیس تک نہیں پہنچ پاتی ہے۔ اس لیے صحیح تصویر سامنے نہیں آئے گی۔ چائلڈ لائن انڈیا فاونڈیشن ممبئی کے نتیش کمار کہتے ہیں ”حالیہ چند برسوں میں بچہ مزدوری کے خلاف شکایتوں کی تعداد میں کافی اضافہ ہوا ہے۔ اعداد و شمار سے واضح ہے کہ لوگوں میں بچہ مزدوری کے تئیں بیداری میں اضافہ ہوا ہے، لیکن یہ کافی نہیں ہے۔ اب کورونا اور لاک ڈاون کی وجہ سے پیدا ہونے والے اقتصادی بحران نے صورت حال کو مزید ابتر کردیا ہے۔"
جاوید اختر، نئی دہلی، (پربھاکر منی تیواری)