1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت: مودی کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک

جاوید اختر، نئی دہلی
20 جولائی 2018

وزیر اعظم نریندر مودی کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پر بھارتی پارلیمان کے ایوان زیریں لوک سبھا میں بحث کا سلسلہ جاری ہے تاہم اس کے ناکام ہوجانے کی توقع ہے۔

https://p.dw.com/p/31q8J
Indien Premierminister Narendra Modi
تصویر: picture-alliance/Zumapress

جنوبی بھارت کی علاقائی جماعت تیلگو دیشم پارٹی کی جانب سے پیش کردہ عدم اعتماد کی تجویز پر آ ج جمعے کے دن گیارہ بجے شروع ہوئی بحث ابھی بھی جاری ہے اور اس کے نصف شب تک چلنے کی امید ہے۔ بحث کے اختتام پر وزیر اعظم مودی جواب دیں گے۔ وزیر اعظم نریندر مودی کے اقتدار سنبھالنے کے چار سال بعد ان کی حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی یہ پہلی تحریک ہے۔ حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی اور اپوزیشن دونوں نے ہی ایک دوسرے کے خلاف رائے عامہ ہموار کرنے کے لیے اس موقع کا بھرپور استعمال کیا۔
یہ بات تقریباً طے ہے کہ عدم اعتماد کی اس تحریک سے حکومت کے گرنے کا کوئی خطرہ نہیں ہے۔ اپوزیشن نے پارلیمنٹ کے گزشتہ اجلاس میں بھی عدم اعتماد کی تحریک پیش کرنے کی متعدد کوششیں کی تھیں لیکن ایوان میں ہنگامہ آرائی کی وجہ سے یہ مسلسل ٹلتی رہی اور مودی حکومت بھی یہی چاہتی تھی کہ عدم اعتماد کی تحریک پیش نہ ہو لیکن اس مرتبہ حکومت نے مصلحتاً عدم اعتماد کی تحریک کا سامنا کرنے کا فیصلہ کیا۔
قبل ازیں ایوان کو اس وقت غیر معمولی نظارہ دیکھنے کو ملا، جب اپوزیشن کانگریس کے صدر راہول گاندھی نے اپنی تقریر مکمل کرنے کے بعد نریندر مودی کی نشست کے پاس جا کر انہیں گلے لگا لیا۔ اپنی بات ختم کر کے وہ وزیر اعظم کی نشست کے پاس گئے اور ان سے گلے لگنے کے لیے اٹھنے کا اشارہ کیا۔ مسٹر مودی نے بیٹھے بیٹھے ہی ان سے ہاتھ ملانے کے لیے اپنا ہاتھ بڑھایا لیکن مسٹر گاندھی نے ہاتھ ملانے کے بجائے گلے لگنے کا اشارہ کیا۔ وزیر اعظم جب تک کچھ سمجھ پاتے کانگریس صدر نے خود ہی جھک کر انہیں گلے لگا لیا اور وہاں سے جانے لگے تو مسٹر مودی نے آگے نکل چکے مسٹر گاندھی کو آواز دے کر اپنے پاس بلایا اور ان سے گرم جوشی سے ہاتھ ملایا۔ وزیر اعظم نے بائیں ہاتھ سے مسٹر گاندھی کی پیٹھ بھی تھپتھپائی۔اس واقعے پر ایوان حیرت زدہ رہ گیا اور پھر تالیوں اور قہقہوں سے گونج اٹھا۔
راہول گاندھی کے وزیر اعظم مودی سے گلے ملنے پر حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی نے سخت اعتراض کیا ہے۔ بی جے پی نے اپنے آفیشیل ٹوئٹر ہینڈل پر لکھا، ’’اس بھرپور تفریح کے لئے ہم آپ کا شکریہ ادا نہیں کر سکتے۔‘‘ پارلیمانی امور کے وزیر اننت کمار نے راہول گاندھی کے رویے کو’’بچکانہ حرکت‘‘ قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ راہول کے عمر میں تو اضافہ ہو رہا ہے لیکن بدقسمتی سے وہ ذہنی طور پر بالغ نہیں ہو پا رہے ہیں۔  دراصل جب مودی سے گلے ملنے کے بعد راہول گاندھی اپنی نشست پر بیٹھے تو انہوں نے آنکھ کا اشارہ کیا۔ جو ٹیلی ویژن کیمرے میں قید ہوگیا۔ لوک سبھا کی اسپیکر سمترا مہاجن نے بھی اس کے لئے راہول کو’نصیحت‘ کر دی۔
راہول گاندھی نے مودی حکومت پر متعدد الزامات لگائے اور ان کی حکومت کو ہر لحاظ سے ناکام قرار دیا۔ راہول گاندھی نے الزام لگایا کہ وزیر اعظم مودی کا ہر وعدہ صرف جملہ بازی ثابت ہوا۔ نہ تو شہریوں کے کھاتوں میں پندرہ پندرہ لاکھ روپے آئے، نہ ہی ہر سال دو کروڑ نوجوانوں کو روزگار مل پایا۔ انہوں نے کہا کہ سرکاری اعدادو شمار کے مطابق پچھلے چار برسوں میں صرف چار لاکھ نوجوانوں کو ہی روزگار مل سکا ہے۔ انہوں نے ملک میں ہجوم کی طرف سے تشدد کے بڑھتے ہوئے واقعات پر وزیر اعظم کی خاموشی کے لئے انہیں آڑے ہاتھوں لیا اور کہا کہ ان واقعات نیز خواتین کی عصمت دری کے بڑھتے ہوئے واقعات کے سبب پوری دنیا میں بھارت کی بدنامی ہو رہی ہے۔
بھارتی وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے جہاں اپوزیشن کانگریس کو اس کی ماضی کی غلطیوں کی یاد دہانی کرائی، وہیں انہوں نے لگے ہاتھوں پاکستان کو بھی نشانہ بنایا۔

Bildergalerie Indien Wahlen 30.04.2014
تصویر: UNI
Indien - Parlament in Neu Dehli
تصویر: picture-alliance/dpa

راج ناتھ سنگھ کا کہنا تھا کہ ’’پاکستان میں اقلیتوں کی حالت انتہائی ناگفتہ بہ ہے جب کہ بھارت میں اقلیتیں محفوظ ہیں اور ہر شعبہ میں ترقی کر رہی ہیں۔‘‘ بھارتی وزیر داخلہ کا کہنا تھا،  ’’پاکستان ایک ذہنیت کا نام ہے۔‘‘ انہوں نے سوال کیا کہ کیا ہم چاہتے ہیں کہ ’پاکستانی ذہنیت ‘ بھارت میں بھی زندہ رہے۔ انہوں نے ممبر پارلیمنٹ ششی تھرور کا نام لئے بغیر کہا،  ’’کچھ لوگ ہندو پاکستان، ہندو طالبان کی بات کرتے ہیں۔ وہ ملک کو کہاں لے جانا چاہتے ہیں۔‘‘ خیال رہے کہ ششی تھرور نے پچھلے دنوں کہا تھا کہ’’اگر آئندہ برس کے پارلیمانی انتخابات میں موجودہ حکمراں جماعت بی جے پی جیت جاتی ہے تو وہ بھارت کو ہندو پاکستان میں تبدیل کر دے گی۔‘‘
نریندر مودی حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی اس تحریک پر بحث شروع ہونے سے پہلے ہی پورے ملک کو معلوم تھا کہ اور خود اپوزیشن بھی اچھی طرح جانتی تھی کہ اس کے پاس حکومت کو گرانے کے لئے اراکین کی مطلوبہ تعداد نہیں ہے۔ 543 رکنی ایوان میں عدم اعتماد کی تحریک کی کامیابی کے لئے 249 ووٹوں کی ضرورت تھی جو اس کے پاس نہیں تھی دوسری طرف حکمراں جماعت کے پاس 313 اراکین ہیں۔
کسی حکومت کے خلاف بھارت میں عدم اعتماد کی یہ تحریک پندرہ برس بعد پیش کی گئی تھی۔ 2003ء میں بی جے پی کی قیادت والی اٹل بہاری واجپائی حکومت کے خلاف سونیا گاندھی نے عدم اعتماد کی تحریک پیش کی تھی اور واجپائی کی حکومت ایک ووٹ سے گر گئی تھی۔ بھارتی پارلیمان کی تاریخ میں عدم اعتماد کی یہ ستائیسویں تحریک تھی۔ اس طرح کی سب سے زیادہ تحریکیں سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی کے خلاف پیش کی گئی تھیں تاہم وہ کبھی بھی کامیاب نہیں ہو سکیں۔