1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت ميں کانفرنس کے ليے پاکستانی مندوبین کے دعوت نامے منسوخ

جاوید اختر، نئی دہلی
18 مارچ 2019

پلوامہ حملے کے اثرات بھارت اور پاکستان کے ادبی اور ثقافتی رشتوں پر اس وقت نمایاں طور پر دکھائی دیا، جب تین روزہ عالمی اردو کانفرنس میں شرکت کے ليے پاکستانی مندوبین کے دعوت نامے منسوخ کر ديے گئے۔

https://p.dw.com/p/3FFDd
New Delhi Urdu- Konferenz Neu Delhi
تصویر: DW/J. Akhtar

اٹھارہ مارچ سے دارالحکومت نئی دہلی میں شروع ہونے والی چھٹی سالانہ کانفرنس میں پاکستان کے ايک نو رکنی وفد کو شرکت کرنی تھی تاہم منتظمین نے کسی تنازعے سے بچنے کے ليے پاکستانی مندوبين کے دعوت نامے واپس لے ليے۔
بھارت کی وزارت برائے فروغ انسانی وسائل کے تحت کام کرنے والا ادارہ قومی کونسل برائے فروغ زبان اردو (این سی پی یو ایل)کے زیر اہتمام اس عالمی کانفرنس میں بھارت کی پینتیس سے زائد یونیورسٹیوں اور تعلیمی اداروں کے علاوہ دنیا کے پندرہ ملکوں سے اردو زبان کے ادیب، دانشور اور مصنفین شرکت کر رہے ہیں۔ پاکستان کی مجلس ترقی ادب کے ڈائریکٹر تحسین فراقی سمیت نو افراد کو بھی اس کانفرنس میں مدعو کیا گیا تھا لیکن پلوامہ واقعہ کے بعد منتظمین نے ان کے دعوت نامے واپس لے ليے۔ گزشتہ برس چوبيس تا چھبيس مارچ منعقد ہونے والی پانچویں عالمی کانفرنس میں شرکت کے ليے پاکستانی مندوبین کو ویزا نہیں مل سکا تھا۔
این سی پی یو ایل کے ڈائریکٹر ڈاکٹر شیخ عقیل احمد نے پاکستانی مندوبین کے دعوت نامے منسوخ کرنے کے حوالے سے ڈی ڈبلیو سے با ت چیت کرتے ہوئے کہا، ’’پلوامہ واقعہ کے بعد بھارت میں عوام کا مزاج بدل گیا ہے۔ اسے دیکھتے ہوئے جن نو پاکستانی مندوبین کو دعوت دی گئی تھی، ان کے دعوت نامے واپس لے ليے گئے ہیں۔ اب پاکستان سے کوئی مندوب اس کانفرنس میں شرکت نہیں کر رہا ہے۔‘‘ شیخ عقیل احمد کا مزید کہنا تھا، ’’ہم نے پاکستان کو اس طرح ایک سخت پیغام دیا ہے کہ جب تک پاکستان اپنے ہاں مبینہ طور پر موجود دہشت گردوں کے کیمپوں کو نیست و نابود نہیں کرتا، اس وقت تک وہاں کے کسی ادیب، شاعر، گلوکار یا فنکار کو بھارت آنے نہیں دیا جائے گا۔‘‘
دوسری جانب بھارت کے متعدد ادیب و دانشور شیخ عقیل احمد کی رائے سے متفق نہیں ہیں۔ کالم نویس اور عالمی اردو ٹرسٹ کے چيئرمین اے رحمان نے عالمی اردو کانفرنس میں پاکستانی ادیبوں کی شرکت کا دعوت نامہ منسوخ کرنے کو غلط اور نامناسب قرار دیا۔ ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا، ’’این سی پی یو ایل نے پاکستانی مہمانوں کی دعوت کو منسوخ کرکے غلط کیا ہے۔ ایسا نہیں ہونا چاہيے تھا۔‘‘ ان کا مزيد کہنا تھا، ’’میرا مشورہ ہے کہ ادب اور ثقافت کو ہمیشہ سیاست سے دور رکھا جائے اور سیاسی حالات خواہ کیسے بھی ہوں، ادبی اور ثقافتی تنظیمیں جو کچھ بھی کر رہی ہوں وہ کرتی رہیں۔ اس سے قطع نظر کہ سیاسی سطح پر کیا چل رہا ہے۔ اس بات کی اجازت نہیں دی جانی چاہيے کہ سیاست اور سیاسی شخصیات ادب اور ثقافت کو متاثر کریں۔‘‘

اے رحمان کا مزید کہنا تھا، ’’اگر سیاسی مجبوری نہ ہو، تو اس طرح کی ہٹ دھرمی کا مظاہر ہ کرنا غیر ضروری ہے۔ اس طرح کا فیصلہ کیا جانا کہ مدعوئین نہیں آئیں گے نامناسب تھا۔ ہمارے ادبی اور ثقافتی رشتے ہمیشہ سیاست سے بالا تر رہے ہیں اور رہنے چاہیيں۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ادب ہی وہ واحد ذریعہ ہے، جو سیاسی دشمنی کے سبب پیدا خلیج کو بھی کم کرنے کے ليے ایک پل کا کام کرتا ہے۔ اور ہمیشہ کیا ہے۔‘‘

کانفرنس میں کلیدی خطبہ پیش کرنے والے کينيڈا کے ڈاکٹرسید تقی عابدی نے پاکستانی مندوبین کے دعوت نامے منسوخ کيے جانے پر کوئی رد عمل ظاہر کرنے سے گریز کرنے کی کوشش کی ۔ انہوں نے تاہم ادبی پیرائے میں اپنے احساسات کا ذکر کچھ یوں کیا، ’’اردو ایک ایسا گلدستہ ہے، جس میں ہر رنگ کے پھول شامل ہیں۔ اس کانفرنس میں کئی ملکوں سے لوگ آئے ہوئے ہیں اور میں دیکھ رہا ہوں کہ اس کی وجہ سے رونق ہے اور تین دنوں تک اردو کے تحفظ اور ترقی کے سلسلے میں مسلسل باتیں ہوتی رہیں گی۔‘‘ بھارتی نزاد ڈاکٹر عابدی کا مزید کہنا تھا، ’’ہوا کو کسی ایک خطے تک محدود نہیں کیا جاسکتا ۔ نسیم سحر کا جب جھونکا چلتا ہے، تو دونوں طرف چلتا ہے اور اردو تو ایک ایسا گھنا درخت ہے، جس کاسایہ سرحدوں کے دونوں جانب ہے۔‘‘
يورپی ملک ڈنمارک سے تشریف لائے ہوئے ايک مہمان نصر ملک نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے اس کانفرنس میں پاکستانی مندوبین کی غیر موجودگی پر افسوس کا اظہار کیا۔ ان کا خیال تھا، ’’ دونوں ملکوں کی یہ عادت بن چکی ہے کہ نہ صرف حکومتی سطح پر بلکہ حکومت خود لوگوں کی اس بات کی طرف توجہ مبذول کراتی ہے کہ اُدھر والا ہمارا دشمن ہے اور اِدھر والے کی آواز یہ ہوتی ہے کہ اُدھر والا ہمارا دشمن ہے۔ اس تناؤ میں محبت اور پیار کے وہ گیت جو ہر دو ملکوں کے ریڈیو سے دونوں طرف کے لوگ سنتے ہیں، ان کے سُر ماند پڑ جاتے ہیں اور ان کی کوئی وقعت نہیں رہ پاتی ہے۔‘‘

سابقہ طور پر ڈینش براڈکاسٹنگ کارپوریشن کی اردو سروس سے وابستہ نصر ملک
سابقہ طور پر ڈینش براڈکاسٹنگ کارپوریشن کی اردو سروس سے وابستہ نصر ملکتصویر: DW/J. Akhtar

ڈینش براڈکاسٹنگ کارپوریشن کی اردو سروس سے سابقہ وابستگی رکھنے والے نصر ملک کا مزید کہنا تھا، ’’ کامیابی اسی میں ہے کہ آپ اپنے دشمن کو اگر وہ خود نہیں آتا، تب بھی آپ مدعو کریں اور بات کریں۔ یہ سلسلہ دونوں اطراف سے شروع ہونا چاہيے، نہ کہ ایک طرف سے۔ پیار کے قصے لکھنے والوں کو روکنا کسی کے ليے بھی سود مند نہیں ہوسکتا۔‘‘
خیال رہے کہ گزشتہ ماہ نغمہ نگار جاوید اختر اور ان کی اہلیہ بالی وڈ اداکارہ شبانہ اعظمی نے پلوامہ واقعہ کے بعد کراچی میں منعقد ہونے والے دو روزہ ادبی میلے میں اپنی شرکت منسوخ کر دی تھی ۔ شبانہ اعظمی نے اس وقت اپنے بیان میں کہا تھا، ’’ایک طرف تو ہمارے جوان ہمارے ليے اپنی جانیں قربان کر رہے ہیں، ایسے میں بھارت اور پاکستان کے درمیان ثقافتی تبادلوں کا کوئی مطلب نہیں ہے۔‘‘

راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کی ایک ذیلی تنظیم راشٹریہ مسلم منچ کے سربراہ اندریش کمار
راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کی ایک ذیلی تنظیم راشٹریہ مسلم منچ کے سربراہ اندریش کمارتصویر: DW/J. Akhtar

این سی پی یو ایل کی طرف سے منعقدہ اس تین روزہ عالمی کانفرنس کے افتتاحی اجلاس کی دلچسپ بات یہ رہی کہ اس کا افتتاح کسی ادیب، شاعر یا دانشور کے بجائے ہندو قوم پرست جماعت راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس ) کی ایک ذیلی تنظیم راشٹریہ مسلم منچ کے سربراہ اندریش کمار نے کیا۔ خیال رہے کہ اندریش کمار پر ماضی میں حیدرآباد کی مکہ مسجد اور اجمیر شریف کی درگاہ میں ہوئے بم دھماکوں میں ملوث ہونے کے الزامات عائد ہوچکے ہیں تاہم بعد میں عدالت نے انہیں ان الزامات سے بری کردیا تھا۔ اندریش کمار نے دو روز قبل ایک بیان میں کہا تھا کہ سن 2025 کے بعد پاکستان، بھارت کا حصہ بن جائے گا۔
وزیر اعظم نریندر مودی نے کانفرنس کے ليے ارسال کردہ اپنے پیغام میں اردو کو نہ صرف ایک مقبول زبان بلکہ بھارت کی خوبصورت گنگا جمنی تہذیب کی علامت بھی قرار دیا۔