1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت میں اسلامو فوبیا کی لہر، عبادت گاہیں محفوظ نہیں

12 ستمبر 2022

بھارتیہ جنتا پارٹی کے برسراقتدار آنے کے بعد شاید ہی کوئی ایسا دن ہو جب مسلم آبادی کی مذہبی، سماجی شناخت، ان کی عبادت گاہوں، مدرسوں اور دیگر چیزوں کو کسی نہ کسی بہانے نشانہ بنائے جانے کی خبریں نا آئی ہوں۔

https://p.dw.com/p/4GjVV
Zeenat Akhte
تصویر: privat

ہم بچپن سے تقسیم ہند کے وقت رونما ہوئے واقعات اور مظالم کی داستانیں سن سن کر بڑے ہوئے ہیں لیکن انہی بڑے بزرگوں سے اب اکثر یہ سننے کو ملتا ہے کہ آج بھارت جن حالات سے گزر رہا ہے، ویسے حالات تو تقسیم ہند کے وقت بھی نہیں تھے۔ چنانچہ جب سے دائیں بازو کی شدت پسند تنظیم آر ایس ایس کی پروردہ ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتار پارٹی برسراقتدار آئی ہے، تب سے کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب ملک کی دوسری بڑی آبادی کی مذہبی، سماجی شناخت، ان کی عبادت گاہوں، مدرسوں اور دیگر چیزوں کو کسی نہ کسی بہانے نشانہ بنائے جانے کی خبریں نا آتی ہوں۔ ایسا نہیں کہ موجودہ حکومت کے 2014 ء میں اقتدار میں آنے سے  پہلے اس طرح واقعات نہیں ہوتے تھے۔ لیکن ان میں حکومت وانتظامیہ اور پولیس اعلانیہ طور پر ملوث نہیں ہوتی تھی اور نہ ہی حکومتی سطح پر بے عملی کا مظاہرہ کیا جاتا تھا۔

آج صورت حال بالکل برعکس ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ فرقہ پرست عناصر کو کھلی چھوٹ ملی ہوئی ہے اور قانون، عدل و انصاف کے تقاضوں کو جس بری طرح پامال کیا جا رہا ہے اس کی نظیر ماضی میں نہیں ملتی۔ وفاقی حکمراں جماعت کے بعض وزراء اور اسی جماعت کے زیر اقتدار ریاستوں کے کچھ وزراء اعلی ایسے بیانات دیتے ہیں جو آئین کی کھلی خلاف ورزی ہوتی ہے حالانکہ انہوں نے اسی آئین کا تحفظ کرنے کا حلف اٹھایا ہے۔

بھارت کا قانون کیا! دنیا کا کوئی بھی قانون کسی عمارت یا جائیداد، وہ بھی جو تعلیم دینے کا مرکز ہو، کو محض شبے کی بنیاد پر بغیر ضابطہ کی کارروائی کے گرانے کی اجازت نہیں دیتا۔ لیکن شمال مشرقی بھارت کی ریاست آسام میں محض ایک مہینے کے اندر ایک نہیں تین تین مدرسوں کو محض دہشت گردی کے شبے میں مہندم کر دیا گیا۔ 

 اس ریاست میں جہاں مسلم آبادی کا تناسب جموں و کشمیر کے بعد سب سے زیادہ یعنی تقریباً 35 فی صد ہے۔ ایک عرصہ سے یہاں مسلمانوں پر بنگلہ دیشی دراندازی کا ہوا ّ کھڑا کر کے عرصہ حیات تنگ کیا جا رہا ہے۔ لیکن 2017ء میں جب سے ہندو قوم پرست جماعت یہاں بر سراقتدار آئی ہے، تب سے مختلف انداز سے مسلم آبادی کو نشانہ بنانے کا سلسلہ شروع ہوا ہے۔ موجودہ حکومت نے اس سے قبل مدرسوں کو برٹش دور سے چلی آ رہی سرکاری گرانٹ یہ کہہ کر ختم کر دی کہ ایک سیکولر حکومت مذہبی تعلیم کے لیے پیسہ نہیں دے سکتی جبکہ ان مدارس میں تمام عصری علوم پڑھائے جاتے تھے۔ اسی طرح مسلم آبادیوں کو ان جگہوں سے زبردستی اجاڑ دیا گیا جنہوں نے سیلاب سے متاثر ہونے کے باعث دوسری جگہوں پر اپنا آشیانہ بنایا تھا۔

ریاست کے وزیر اعلی ہیمانتو بسوا سرما نے یہ بھی حکم صادر کیا کہ مسلمانوں کو چاہیے کہ اگر کوئی بیرونی امام ان کے علاقہ میں آئے تو اس کے بارے میں پولیس کو مطلع کریں۔  سرما  نے یہ دعوی کیا کہ ”جہادی" عناصر اماموں کے بھیس میں ریاست میں داخل ہو رہے ہیں اور ہمیں جب اس بارے میں اطلاع ملتی ہے تو ہم  مدرسوں کو ختم کر رہے ہیں۔ جب سے سرما وزیر اعلی بنے ہیں تب سے تقریبا ً 700 مدرسوں کو بند کر دیا گیا ہے۔

آبادی کے لحاظ سے ملک کی سب سے بڑی ریاست اتر پردیش میں بھیاسلامو فوبیا کے یکے بعد دیگرے واقعات پیش آرہے ہیں۔ اس صوبہ میں تمام ریاستوں کے مقابلے میں مسلمانوں کی سب سے بڑی آبادی جوچار کروڑ زائد ہے۔ ریاست کے وزیر اعلی یوگی ادیتہ ناتھ نہ صرف ایسے بیانات دیتے ہیں جن سے فرقہ واریت کی بو آتی ہے بلکہ وہ فیصلے بھی اسی سوچ کے تحت کرتے ہیں۔ اب ان کی حکومت نے ریاست میں مدارس کے سروے کا حکم دیا ہے جہاں  بڑے بڑے اور شہرہ آفاق مدارس جیسے دارالعلوم دیوبند، دارالعلوم ندوۃ علماء لکھنو، مدرسہ اصلاح میر، اعظم گڑھ، مظاہرالعلوم سہارنپور وغیرہ واقع ہیں۔ آزادی کے فوری بعد اردو ذریعہ تعلیم اچانک ختم کر نے کے نتیجہ میں بڑی تعداد میں مدرسے معرض وجود میں آئے ہیں اور پورے ملک سب سے زیادہ مدارس اسی ریاست میں ہیں۔ چنانچہ سروے کے فیصلہ نے مسلمانوں میں ایک طرح کی بے چینی پیدا کردی ہے۔ جمعیت علماء ہند نے مدارس کے تحفظ کے لیے ایک کمیٹی بنا دی ہے۔

اسی طرح ریاست میں ساڑھے چار سو سالہ بابری مسجد کو تو مندر میں تبدیل کرنے کے بعد ہر تاریخی مسجد کے نیچے مندر تلاش کرنے کی مہم  زور و شور سے جاری ہے۔ بنارس کی گیان واپی مسجد، متھرا کی شاہی عیدگاہ کی مسجد اور دیگر مقامات کی مسجدوں پر مندر ہونے کے دعوے کیے جا رہے ہیں۔ 

ادھر جنوبی بھارت کی ریاست بھی کرناٹک بھی اسلاموفوبیا کی زد میں ہے۔ بی جے پی کے زیر اقتدار والی اس ریاست میں جہاں حجاب معاملہ ابھی سرد بھی نہیں ہوا تھا کہ عیدگاہوں میں زبردستی گینش کا پنڈال لگانے کی مہم شروع کی گئی۔ ریاست کے دارالحکومت بنگلور کی دو سالہ قدیم عیدگاہ میں گنیش پنڈال  لگانے کی کرناٹک ہائی کورٹ نے اجازت تک دیدی تھی۔ تاہم سپریم کورٹ نے اس فیصلہ پر امتناع لگا دیا۔

 بھارت اسلاموفوبیا کے یہ واقعات زیادہ تر ان ریاستوں میں ہو رہے ہیں، جہاں بی جے پی بر سراقتدار ہے، جس کی سیاست کا محور مسلمانوں اور  مسیحیوں کے خلاف نفرت پھیلا کر فرقہ وارانہ کشیدگی پیدا کرنا ہے۔ اسی منافرانہ سیاست کی کاٹ کرنے کی غرض سے حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت کانگریس نے اپنے رہنما راہول گاندھی کی قیادت کی ”بھارت جوڑو یاترا‘‘ شروع کی ہے، جس کا آغاز کنیا کماری سے کیا گیا ہے اور کشمیر  میں اس کا اختتام عمل میں آئے گا۔  اب دیکھنا ہے کہ یہ یاترا اپنے مقصد میں کس حد کامیاب تک  ہوتی ہے!  

نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو  کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں