بھارت میں انتخابات: ایکس نے کئی سیاسی پوسٹس بلاک کر دیں
17 اپریل 2024ٹیسلا کے سربراہ ایلون مسک کی ملکیت اور ماضی میں ٹوئٹر کے نام سے مشہور سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس کا کہنا ہے کہ اسے بھارتی الیکشن کمیشن کے اس حکم سے اختلاف ہے لیکن اس کے باوجود انتخابات مکمل ہونے تک ان پوسٹس کو بھارتی ناظرین کے لیے بلاک کر دیا گیا ہے۔
ایکس نے منگل کو رات دیر گئے اسی پلیٹ فارم پر پوسٹ کیے گئے ایک بیان میں کہا، ''احکامات کی تعمیل میں ہم نے ان پوسٹس کو انتخابی مدت کے بقیہ عرصے کے لیے بلاک کر دیا ہے۔‘‘
'مودی حکومت کے حکم پر عمل ہو گا، تاہم اس سے متفق نہیں ہیں‘
ایلون مسک کا ایکس (ٹوئٹر) غلط معلومات کا سب سے بڑا ذریعہ، یورپی یونین
اس بیان میں مزید کہا گیا، ''ہم تاہم ان اقدامات سے متفق نہیں ہیں اور اس بات پر قائم ہیں کہ ان پوسٹس اور بالعموم سیاسی تقاریر کو اظہار رائے کی آزادی کے تحت پھیلانا چاہیے۔‘‘
خیال رہے کہ متعدد اہم سیاست دانوں، سیاسی جماعتوں اور انتخابات میں حصہ لینے والے امیدواروں کی طرف سے شائع کردہ پوسٹس میں مخالفین سے متعلق غیر مصدقہ دعوے کیے گئے ہیں اور بھارتی الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ یہ سوشل میڈیا پوسٹس مثالی ضابطہ اخلاق کے منافی ہیں۔
ایکس کی طرف سے بھارتی الیکشن کمیشن کے حکم کی تعمیل کا اعلان اسی دن کیا گیا، جب اس سوشل میڈیا پلیٹ فارم کے برازیل میں دفتر نے کہا کہ وہ اس ملک میں غلط معلومات پھیلانے والے صارفین کو روکنے کے لیے عدالتی ہدایت کی پابندی کرے گا۔
ایلون مسک نے اس سے قبل برازیل کی ایک عدالت کے حکم کو مسترد کر دینے کی دھمکی دی تھی۔
بھارت کی ورلڈ پریس فریڈم انڈکس میں مسلسل گراوٹ
ارب پتی تاجر مسک اسی ماہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی سے ملاقات کرنے والے ہیں اور اس جنوبی ایشیائی ملک میں سرمایہ کاری کے بڑے منصوبوں پر تبادلہ خیال کریں گے۔
بھارت، جو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے، مختلف حکومتوں کی جانب سے سوشل میڈیا مواد کو ہٹانے کی باقاعدہ درخواستوں کے حوالے سے عالمی سطح پر پانچ سرفہرست ممالک میں سے ایک ہے۔
مس انفارمیشن اور ڈس انفارمیشن سے خطرات والے ملکوں میں بھارت سرفہرست
بی جے پی کا الیکشن میں کامیابی کے لیے سوشل میڈیا انفلونسرز کا استعمال
گزشتہ سال ایک بھارتی عدالت نے ایکس کو اس وقت 61 ہزار ڈالر جرمانہ بھی کر دیا تھا، جب اس سوشل میڈیا پلیٹ فارم نے مودی حکومت پر تنقید کرنے والی ٹویٹس اور اکاؤنٹس کو ہٹانے کے احکامات کو ناکام چیلنج کیا تھا۔
انسانی حقوق کے گروپوں کا کہنا ہے کہ بھارت میں اظہار رائے کی آزادی خطر ے میں ہے۔ سن 2014 میں وزیر اعظم مودی کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے بھارت ورلڈ پریس فریڈم انڈکس میں 180 ملکوں کی فہرست میں 21 درجے گر کر 161 ویں نمبر پر آ چکا ہے۔
بھارتی حکام ملک کے مختلف حصوں اور بالخصو ص کشمیر میں بدامنی کے واقعات کے دوران انٹرنیٹ کو باقاعدگی سے بند رکھتے ہیں۔ شمال مشرقی ریاست منی پور میں گزشتہ سال نسلی تشدد کے دوران بھی انٹرنیٹ ایک مہینے تک بند رکھا گیا تھا۔
بھارتی حکومت کا کہنا ہے کہ افواہوں کو پھیلنے سے روکنے کے لیے اسے سوشل میڈیا یا موبائل میسیجنگ ایپس تک رسائی عارضی طور پر معطل کرنا پڑتی ہے۔
بھارت میں عام انتخابات کے دوران 19 اپریل کو پہلے مرحلے کی ووٹنگ ہو گی جب کہ آخری مرحلے میں رائے دہی یکم جون کو ہو گی۔ ملک بھر میں ڈالے گئے ووٹوں کی گنتی اس کے تین دن بعد کی جائے گی۔
ج ا/م م (اے ایف پی)