بھارت کے موجودہ عام انتخابات میں تو سیاستدانوں نے حد ہی کر دی ہے۔ انتخابات جیتنے کے لیے سیاسی جماعتیں کیا کیاحربے استعمال کر رہی ہیں۔ اف، توبہ ۔
ان عقل کے اندھوں کو کون بتائے کہ تقریباﹰ ایک بلین یعنی ایک سوکروڑ ہندوؤں کو کیسے دو سو ملین مسلم آبادی پیچھے چھوڑ سکتی ہے؟ مسلمان تو پچھلے چودہ سو سالوں سےبھارت کے مکیں ہیں۔ ان میں سے آٹھ سو سالوں تک تو یہاں مسلم بادشاہ حکمران بھی رہے ہیں۔ اگر اس ایک ہزار سالہ دور میں، جب وہ اتنے طاقتور تھے، آبادی نہیں بڑھا پائے، اب اتنے پسماندہ ہوکر کیسے ہندوؤں کے لیے خطرہ بن سکتے ہیں؟
وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنی ایک انتخابی ریلی میں یہ تک کہا کہ اگر اپوزیشن اقتدار میں آئے گی، تو وہ ایسے قانون لائے گی، جن کے ذریعے ہندوؤں سے ان کی دولت چھین کر مسلمانوں کو دے دی جائے گی۔ اسی طرح ابھی کچھ دن قبل وزیراعظم کی اکنامک ایڈوائزری کمیٹی نے مذہبی اقلیتوں کی آبادی میں حصہ داری کے حوالے سے رپورٹ جاری کی گئی رپورٹ میں بتایا کہ جن ممالک مسلم اکثریتی ممالک پاکستان اور بنگلہ دیش وغیرہ کی آبادی میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ اس کے برعکس نیپال، بھارت اور میانمار جیسے غیر مسلم ممالک میں اکثریتی آبادی کا حصہ کم ہوا ہے۔
حکومت کی طرف سے جاری کردہ نیشنل فیملی ہیلتھ سروے کے مطابق سکھ خواتین میں خاندانی منصوبہ بندی کی شرح 71 جبکہ مسلم خواتین میں یہ شرح 53 فیصد ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ اگر کوئی خاتون کم از کم سکول کی سطح تک تعلیم یافتہ ہو تو اس کے بچوں کی تعداد کم ہو گی۔ وہ خواتین، جو اسکول نہیں گئیں ان کے ہاں بچوں کی اوسط 3.1 ہے، اس کے مقابلے میں ان خواتین کے ہاں بچوں کی اوسط 1.7 ہے، جنہوں نے 12 یا اس سے زیادہ سالوں تک اسکول کی تعلیم حا صل کی ہے۔
شادی کے بعد مجھے اور میرے شوہر کو بھی خاندان شروع کرنے کے لیے آٹھ سال لگ گئےکیونکہ ہم دونوں کیریئر بنانے کی دوڑ میں اس قدر مصروف تھے کہ بچے پالنے کی ذمہ داری کے بارے میں سوچ ہی نہیں سکتے تھے۔ مگر جب خاندان کے بزرگوں نے دباؤ ڈالا، تو ہم نے پلاننگ کی اور ہمارا بیٹا اس وقت ماشااللہ سات سال کا ہے۔ پھر جب اسکول میں اس کے ایڈمیشن کی تگ و دو وغیرہ اور دیگر ذمہ داریوں کا بوجھ کندھوں پر آیا تو برزگوں کے مطالبے اور ترغیبات کے باوجود ہم نے دوسرے بچے کے بارے میں سوچا ہی نہیں۔
آج کے دور میں ایک مڈل کلاس کے خاندان کے لیے ایک بچے کی پرورش کرنا ہی مشکل ہے۔ یہ مسئلہ صرف میرا نہیں ہے بلکہ جب میں اپنے اردگرد اپنے جیسے خاندانوں کو دیکھتی ہوں، تو شاید ہی کسی نے دو سے زیادہ بچے پیدا کر رکھے ہیں۔ نئی نسل کے والدین توایک بچے کے ساتھ ہی خاندان کو مکمل محسوس کرتے ہیں۔ بھارت میں جب بھی آبادی پر بحث ہوتی ہے تو ہندو مسلمان کی تقسیم کاروپ اختیار کر جاتی ہے۔
ہندو گروپوں کا دعوی ہے کہ مسلمان ایک سے زائد بیویاں رکھتے ہیں۔ مسلمانوں کو چڑانے کے لیے ہم پانچ اور ہمارے پچیس بچے کا نعرہ بھی لگایا جاتا ہے۔ کم ازکم میرے حلقہ میں جو مسلمان ہیں، ان میں سے کسی کی بھی ایک سے زیادہ بیوی ہے نہ ہی دو سے زیادہ بچے۔ آخر یہ اختراع کہاں سے آتی ہے؟
ہاں اگر ان مسلمانوں کا ذکر کیا جائے، جو تنگ گلیوں، کچی آبادیوں اور دیہاتوں میں رہتے ہیں تو ان کے دو سے زیادہ بچے واقعی ہوتے ہیں۔ ان بستیوں میں جو ہندو رہتے ہیں، ان کا بھی وہی حال ہے۔ ایک سکھ ہونے کے ناطے، جو کہ بھارت میں ایک چھوٹی سی اقلیت بھی ہے، میں اکثر سوچتی ہوں کہ ایسا کیوں ہے کہ میری برادری کی آبادی دیگر مذاہب کے مقابلے زیادہ نہیں بڑھی؟
جب میں نے شماریات کے چند ماہرین سے بات کی تو معلوم ہوا کہ کسی بھی کمیونٹی یا گروہ کی آبادی کا انحصار اس کی معاشی خوشحالی پر منحصر ہوتا ہے۔ ایک خوشحال معاشرہ جہاں گھر کی عورتیں پڑھی لکھی ہوں، وہاں بچے کم ہوں گے۔ کیریئر کی دوڑ میں وہ کم بچے پیدا کرنے کی ضرورت اور اہمیت کو سمجھتے ہیں۔ اس میں مذہب کا شاید ہی کوئی عمل و دخل ہے۔
یوں تو مسلمان بھارت میں سب سے بڑا اقلیتی گروہ ہے، لیکن دیگر اقلیتی برادریوں کے مقابلے مسلمانوں میں خواندگی کی شرح سب سے کم ہے، چاہے وہ اسکولوں میں مسلم بچوں کا داخلہ ہو، سرکاری ملازمتوں یا پھر اداروں تک رسائی ہو۔ بھارت میں مسلمانوں کی 30 فیصد سے زیادہ آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔
نیشنل فیملی ہیلتھ سروے بتاتا ہے کہ بھارت میں مسلمانوں کی آبادی 1950ء میں 9.8 فیصد سے بڑھ کر 2015ء میں 14.09 فیصد ہو گئی ہے۔ اسی دوران سکھوں کی آبادی میں 1.24 سے 1.85 فیصد اضافہ ہوا، جو کہ آبادی میں ان کے حصہ میں 6.58 فیصد اضافے کی نشاندہی کرتا ہے۔
بھارت میں آبادی کے رجحانات پر کام کرنے والے تھنک ٹینک پاپولیشن فاؤنڈیشن آف انڈیا (PFI) نے اس حکومتی رپورٹ کو بے بنیاد اور گمراہ کن قرار دیا۔ بھارت کی آزادی کے سات دہائیوں سے زیادہ کے بعد بھی ہندو اکثریتی مذہب کے طور پر برقرار ہے۔ مسلمان ملک میں سب سے بڑی اقلیتی برادریوں میں مسلمانوں کے بعد مسیحیوں، سکھوں، جینوں اور پارسیوں کا نمبر آتا ہے۔ حکومتی رپورٹ یہ بتاتی ہے کہ1951ء کے بعد سے جہاں مسلمانوں کی آبادی میں 43.15 فیصد کا اضافہ ہوا ہے، وہیں ہندوؤں کی آبادی میں 7.8 فیصد کی کمی واقع ہوئی ہے۔
موجودہ انتخابی مہم کے دوران تو وزیر اعظم مودی نے خود ہی مسلمانوں کو گھس بیٹھیا اور درجنوں بچوں کو جنم دینے والی قوم قرار دیا تھا۔ بعد میں بتایا کہ وہ ایک فرقہ کی بات نہیں کر رہے تھے بلکہ وہ تمام غریبوں سے مخاطب تھے۔
مگر ان کی تقریر کے بعد جس طرح خود ساختہ ماہرین کی رپورٹ جاری کی گئی اور جعلی اعداد و شمار سے یہ نتیجہ اخذ کرنے کی کوشش کی گئی کہ مسلمانوں کی آبادی واقعی بڑھ رہی ہے، اس سے تو یہی ثابت ہوتا ہے کہ یہ لسٹ مودی کو کلین چٹ دینے کے لیے جاری کی گئی تھی۔
یعنی ایک تیر سے دو شکار۔ آخر کب تک ہم اس خوف کی نفسیات میں مبتلا ہوکر ووٹ دیتے رہیں گے۔ میں ہندو دوستوں سے درخواست کرتی ہوں کہ کسی ایک بھی ایسی مڈل کلاس مسلم فیملی یا شخص کی نشاندہی کریں، جس کی ایک سے زیادہ بیویاں ہوں اور درجنوں بچے۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔